شہزادہ نارسیسس بھوک و پیاس سے کیوں مرا تھا؟
مولانا خانزیب
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اکثریت کو انسانی صفات و خصائل کے حوالے سے بڑے اعتدال کے ساتھ پیدا کیا ہے مگر کچھ لوگ اس اعتدال سے مختلف حیثیتوں میں مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ کسی انفرادی انسان کا انسانوں کے نظم اجتماعی کے اصولوں کے برخلاف چلنا اتنا زیادہ مہلک نہیں ہوتا مگر سنگینی اس وقت خطرناک رخ اختیار کرتی ہے جب یہ مبالغہ آمیز انفرادی رویے کسی معاشرے کے اجتماعی خصائل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
فرد کی اصلاح تو آسان ہوتی ہے لیکن ایک پورے معاشرے کی اصلاح اسے شر کے بجائے خیر کے رخ پر ڈالنا انتہاہی کٹھن کام ہوتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ جب اس معاشرے کی اجتماعی حالت اپنی اصلاح اور خیر کو قبول کرنے سے بالفعل منکر ہو۔ ایسی صورت میں اس تہذیب اور اس سے جڑے معاشرے کا منتشر ہونا، ٹوٹنا اور اپنی تاریخ و تہذیب سے لاتعلق ہونا بطورِ نتیجہ کے لازم ہوتا ہے اور اس تہذیب اور پورے معاشرے کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
انسانی فطرت میں اپنے اور معاشرے کے ساتھ انس رکھا گیا ہے۔ ایک حد تک اپنے آپ سے پیار انسانی فطرت کا حصہ ہے مگر جو چیز بھی حد اعتدال سے نکل جائے خواہ افراط کی شکل میں ہو یا تفریط وہ پھر مذموم بن جاتی ہے۔ اپنے آپ سے حدود کے دائرے میں مانوس ہونا جس کے توسط سے تحفظ و پیار کے جذبے پرورش پاتے ہیں ممدوح عمل ہے۔ ذات کی محبت سے ہی انسان دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
اسی تناظر میں، سگمنڈفرائیڈ نے مزید دریافتیں کیں اور کشش، پیار و جنس کے مختلف زاویوں کی وضاحت کی۔ عنفوان شباب میں بچے آئینہ بہت دیکھتے ہیں اور والدین کی ڈانٹ سنتے ہیں۔ درحقیقت اس دور میں بچہ تشخص کی پیچیدگیوں سے گزرتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے ہونے کو محسوس کرتا ہے۔ وہ بار بار آئینے میں اپنے چہرے کے خدوخال کو دیکھتا ہے۔ مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے اور اپنی شخصیت کو سوچتا ہے کہ اسے کیسے کپڑے پہننے ہیں۔ کون سا ہیئر اسٹائل اس پر جچے گا۔ پھر آئینے کے توسط سے وہ اپنی ذات سے پیار کرنے لگتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب توقیر و ذہنی نشوونما سے اس کی ذات تشکیل پاتی ہے۔
اپنی نظروں میں اچھا ہونا ایک انسان کی شخصی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس حوالے سے ماں بچے کو صحیح تشخص عطا کرنے کے سلسلے میں بہت معاونت کرتی ہے۔ بصورت دیگر ذات کی کمی ذہنی امراض کا پیش خیمہ بن جاتی ہے نرگسیت کا مرض بھی نفسیاتی بیماریوں میں شامل ہے جس طرح کہ یہ عادات و اطوار کسی فرد کے حق میں مضر ہیں اس سے زیادہ کسی انسانی اجتماع اور معاشرے کے حق میں مضر ہیں۔
علم نفسیات کی اصطلاح میں نرگسیت، جس کا مفہوم خودپسندی ہے، اپنے آپ کو ہر حال میں بالادست ثابت کرنا اپنی کمزوریوں کا تجزیہ اور اصلاح کرنے کے بجائے دوسروں کو اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا ہوتی ہے۔ یہ نرگسیت افراد میں بھی ہوتی ہے اور پورے کا پورا معاشرہ بھی اس خوفناک نادیدہ مرض کا شکار ہو سکتا ہے جس کو ہم تہذیبی نرگسیت سے موسوم کر سکتے ہیں۔
وہ معاشرے تہذیبیں آگے بڑھتی ہیں جو وقت کے ساتھ اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور تبدیلی کے فطری عمل کو قبول کر کے خود کو آمادہ بہ اصلاح کر لیتی ہیں لیکن جب آپ بحیثیت معاشرہ تبدیلی اور اصلاح کے تصور سے انکار کرتے ہیں تو درحقیقت آپ قوانین فطرت کے منکر ہیں اور فطرت کا انکار مستقل تباہی پر منتج ہوتا ہے۔
اسی بے جا خودپسندی نفسیاتی بیماری کو نرگسیت کہنے کی وجہ قدیم یونان کی ایک دیو مالائی کہانی بیان کی جاتی ہے جس کا مرکزی کردار ”نارسیسس” ایک خوبصورت شہزادہ ہے جسے اپنے چاہنے والوں اور اردگرد کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اپنی تعریفیں سن سن کر خودپسند تو وہ تھا ہی، ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر اپنے آپ پر فریفتہ بھی ہو گیا۔ دن رات اپنے آپ کو دیکھتا تھا اس حالت میں وہ بھوک پیاس سے نڈھال ہو گیا۔ اس کو شک تھا کہ پانی کی سطح کے ہلنے سے اس کا عکس ٹوٹ جائے گا اور اس کی حسین شکل و صورت ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ جائے گی چنانچہ کچھ عرصہ بعد وہ بھوک پیاس سے مر گیا۔
بیان کے مطابق دیوتاؤں نے شہزادہ کو نرگس کا پھول بنا دیا، اسی وجہ سے خودپسندی کو نرگسیت کا نام دیا گیا۔ ماہرین نفسیات کے مطابق نرگسیت کے مثبت اور صحت مند رجحانات ہم سب میں موجود ہیں، خودپسندی، عزت نفس، مسابقت، ایثار، خودبینی اور خودشناسی وغیرہ نرگسیت کی صحت مند شکلیں ہیں۔
پشتو کی ایک کہاوت ہے، ”نیکی کوہ او سیند تہ یی اچوہ”، ان صفات کا تعلق انسان کی ذاتی خوبیوں سے منسلک ہے لیکن وہ نرگسیت قابل علاج ہونی چاہیے جس کا تعلق معاشرہ، تنظیم اور سماجی معاملات سے ہو کیونکہ جو معاشرے نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں وہ اس پوری تہذیب کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
نرگسیت کا سب سے خطرناک رخ یہ ہوتا ہے کہ اس میں مبتلا افراد اور معاشرے اپنے آپ کو مریض ہی نہیں مانتے، چابک دستی اور زبان درازی کے ساتھ اپنا دفاع کرتے ہیں، جو اسے اصلاح کا مشورہ دیتا ہے اسے گمراہ، حاسد اور بدنیت کہتے ہیں۔
فرد کی نرگسیت جس طرح خاندان اور معاشرے کیلئے شدید مسائل پیدا کرتی ہے اسی طرح اجتماعی یا تہذیبی نرگسیت اقوام عالم کیلئے اضطراب اور تصادم پر منتج ہوتی ہے، اجتماعی نرگسیت کو ختم کرنے کیلئے ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ان کے خلاف اجتماعی طور پر کرخت تنقید کا نشتر بلاخوف و خطر استعمال کیا جائے کیونکہ تنقید کی شدت کا ردعمل اس معاشرے میں پیدا ہونے والے عمل کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ اس میں مبتلا لوگوں کو ذہنی طور پر جھنجھوڑا جائے اور مزید تخریب سے پہلے ان کو آمادہ بہ اصلاح کیا جائے۔
نرگسیت میں مبتلا فرد یا معاشرے میں درج ذیل علامات ہوتی ہیں۔
ایسے لوگ اپنی انا اور خواہشات کو اجتماعی مفاد پر قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے، یہ لوگوں کے ساتھ مصنوعی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ درحقیقت ان کا دل ہر طرح کی ہمدردی سے خالی ہوتا ہے، ایسے لوگ ”تملق پسند” (خوشامد یا چاپلوسی کو پسند کرنے والے) ہوتے ہیں اور ان کی ہر ادا پر بناوٹ پسندی غالب ہوتی ہے، اپنی انا کی خاطر کسی بھی حادثہ کے وقت نارمل لوگوں سے زیادہ جذبات کا اظہار کرتا ہے، روتا چلاتا بھی ہے، جس کا مقصد لوگوں کو اپنی طرف مائل کر کے اپنی تعریفیں کروانا ہوتی ہے، ہر وقت اپنی غیرضروری تعریفیں سننا چاہتا ہے، اپنی ناکامی کو ہمیشہ دوسروں کے سر تھوپتا ہے، کسی بھی طرح اپنی کمزوری کو قبول نہیں کرتا۔
حد سے زیادہ خود نمائی، تکبر، انانیت، احسان جتلانا، ہر وقت لوگوں کو طعنے دینا، نرگسی طیش، دوسروں پر بے جا الزامات لگانا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔ ہر کام میں اپنے آپ کو حد سے زیادہ بڑھا ثابت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی وقوعہ کا تمام کریڈٹ لوگ صرف اسی کی ذات کو دیں، ایسا شخص اجتماعی یگانگت سے خالی ہوتا ہے حالانکہ انسانی اجتماع میں کوئی بھی فرد انفرادی طور پر ناگزیر نہیں ہے، انسانی اجتماع کی اہمیت کو ختم کرنا نرگسیت کی جڑ ہے۔
ایسا شخص ندامت اور تشکر کی صفات سے عاری ہوتا ہے، اپنی کوتاہی پر نادم نہیں ہوتا اور کسی کی نوازش پر شکریہ اپنی شان کے منافی سمجھتا ہے۔ موجودہ وقت میں فارغ ہو کے بھی کسی کا فون نہ سننا، بعد میں جواب نہ دینا، کسی میسیج کا جواب نہ دینا، سوشل میڈیا پر ہر وقت اپنی ذات کے دائرے میں مقید ہونا نرگسیت کی جدید شکلیں ہیں۔
ایسا شخص جب کسی محفل میں بیٹھا ہو تو باوجود اس کے کہ لوگ اس کی تصنع پسندی سے تنگ آ چکے ہوتے ہیں مگر وہ پھر بھی اس شان سے شگوفے چھوڑے گا کہ جیسے کسی کو اس کی حقیقی حالت کا ادراک ہی نہیں۔
ڈاکٹر ڈیوڈ تھامسن اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان کے ہر کام میں دوسروں کے جذبات سے لاتعلقی ہوتی ہے، ان کے تمام افعال نقالی سے معمور ہوتے ہیں، دوسروں کی بات لازمی کاٹنا اور اپنی سنانا عادت مستمرہ ہوتی ہے، چھوٹا کام اپنی شان کے منافی سمجھتے ہیں، کسی قسم کے قواعد و ضوابط سے اپنے آپ کو مبرا سمجھتے ہیں، ہر کسی کے کام میں ٹانگ اڑانا اپنی عقل پسندی سمجھتے ہیں اور بہت زیادہ بولنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دوسروں کی کم سنتے ہیں۔
معاشرے میں ایسے نفسیاتی مریضوں کے ساتھ نارمل انسان کو کام کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ کسی محکمے میں بالادست ہو تو لوگوں کی جان عذاب میں مبتلا ہوتی ہے اور اگر زیردست ہو تو لوگوں سے لڑائیاں معمول بن جاتی ہیں، ان خصائل کی بنیاد پر اگر ہم مسلم امہ کے حال کا بحیثیت مجموعی تجزیہ کریں تو ہم بحیثیت امت نرگسیت کا شکار ہیں۔
ہمارا عام رویہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی بات اسلام اور دین کا نام لے کر پیش اور مسلط کی جاتی ہے تو ہم اس پر سوال اٹھانے سے نہ صرف جھجھکتے ہیں بلکہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے محض اپنے اپنے مکتبِ فکر کو واحد درست قرار دینے اور باقی ہر ایک پر کفر کے فتوے جاری کرنے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں اور اس اجارہ داری کو اس حد تک لے جایا گیا کہ مرنے مارنے والے مسلح مذہبی گروہ پیدا ہونے لگے ہیں، ہر ایجاد کا کریڈٹ ہم لیتے ہیں یہ کسی حد تک ٹھیک ہے کہ پندرہویں صدی تک مسلم سائنسدانوں نے بڑا علمی کام کیا ہے، بڑے بڑے سائنسی و سماجی نظریات کو پیش کیا ہے مگر جدید متمدن دنیا جو چاند تک پہنچ چکی ہے، مریخ و زھرہ پر کمندیں ڈالنے کیلئے تیاریاں کر رہے ہیں خلائی، راکٹوں سے نکل کر سیٹلائٹ سے آگے کا سوچ رہے ہیں۔
اس جدید دنیا میں مسلمانوں کا کتنہ حصہ ہے، جدید ایجادات میں ہم کس قعر مذلت میں پڑے ہیں اس کا کسی نے کبھی سوچا ہے۔ ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کے بجائے ہر کام کو کافروں کی سازش کہہ کر اپنی اصلاح سے راہ فرار کیوں اختیار کرتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ آج کل کی جدید سائنسی ایجادات اور دنیا کے ساتھ مسابقت کی دوڑ سے ہم مسلمان باہر ہو چکے ہیں مگر صرف اس پر خوش ہے کہ تمام سائنسی ایجادات کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی ہے، اب کیا ہے، اب کیا کرنا ہے، حال کے اس مشکل سے کس طرح نکلنا ہے، اس پر سوچنے اور تجزیہ کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔
یہ یاد رکھیں کہ شاندار ماضی کے تصورات میں ہمیں ڈوبنا نہیں ہو گا، شاندار ماضی کے ساتھ شاندار حال اور مستقبل لازمی ہے، نہیں تو وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے صرف یہ کہتے ہوئے کہ ”پدرم سلطان بود۔”
اگر ہم مسلمانوں نے بالعموم اور پختونوں نے بالخصوص اس اجتماعی نرگسیت سے نکلنا ہے تو دین کے آفاقی اصولوں کو قائم رکھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، دنیا کے ساتھ چلنا ہو گا کیونکہ مسئلہ اسلام میں نہیں بلکہ ہم مسلمانوں میں ہے کہ ہم بحیثیت امت نکمے اور آرام پسند ہو گئے ہیں، اپنے حال کو بدلنے کیلئے کچھ نہیں کر سکتے اس لئے صرف خوابوں کی دنیا میں رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
کس درجہ ہوئے فقیہان حرم بے توفیق