افغانستان کے وہ شہر جہاں مرد و خواتین سبھی نسوار کا استعمال کرتے ہیں
رانی عندلیب
افغانستان کے وہ شہر جہاں مرد، خواتین سب ہی نسوار کا استعمال کرتے ہیں جبکہ خواتین کے نسوار کا استعمال معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا۔
افغانستان کے بہت سے علاقوں اور گاؤں کے لوگ نسوار کے کاروبار سے منسلک ہیں اور نسوار استعمال کرتے ہیں،
نسوار کھانے کا رواج افغانستان کی قدیم روایات میں سے ایک ہے، قدیم زمانے سے ہی افغانستان کے لوگ شوق سے نسوار کھاتے ہیں جبکہ نسوار بنانے کا پیشہ بھی ان لوگوں میں زیادہ ہے۔
افغانستان کے بہت سے علاقوں میں نہ صرف لوگ اس کا پیشہ کرتے ہیں بلکہ بوڑھے، جوان، مرد و خواتین یہاں تک کہ بچے بھی نسوار استمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نسوار میں جس پودے کے پتے استعمال ہوتے ہیں وہ افغانستان میں بکثرت پائے جاتے ہیں، اعلٰی کوالٹی کی نسوار کنڑ میں تیار ہوتی ہے جو پورے افغانستان کے علاوہ پاکستان، ترکی اور ایران کو برآمد بھی کی جاتی ہے۔
افغانستان کی مشہور نسوار سبز نسوار ہے جو کنڑ میں تیار کی جاتی ہے، کنڑ میں مردوں سے زیادہ خواتین اور بچے نسوار کھاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر تمام لوگوں کا پیشہ نسوار ہے، ان لوگوں کو کوئی دوسرا کام آتا بھی نہیں، مرد و خواتین اور بچے بھی سبز نسوار بناتے ہیں، کنڑ کے لوگ اس کی کاشت بھی خود کرتے ہیں۔
سپوگمے، جس کا تعلق افغانستان سے ہے، کا کہنا ہے کہ اس کی دو پھوپھیاں، پانچ چاچو، 5 خالائیں، پانچ ماموں اور خود اس کی اپنی امی بھی نسوار استعمال کرتی ہیّں، نسوار کھانا ان کی فیملی میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ سب فخریہ نسوار کھاتے ہیں، ”وقت اور حالات کے ساتھ جسطرح ہر چیز میں تبدیلی آئی ہے اسی طرح لوگوں کی سوچ میں بھی فرق آیا ہے، اب لوگ پہلے کی طرح نسوار زیادہ استعمال نہین کرتے، اس کی شرح اب کم ہو گئی ہے، پہلے سو فیصد لوگ نسوار استعمال کرتے تھے اب ساٹھ فیصد استعمال کرتے ہیں، اب نئی نسل میں نسوار کھانے کا رواج کافی کم ہو چکا ہے۔
سپوگمے کی 85 سالہ پھو پھو گل مرجانا، جن کا تعلق کونڑ سے ہے، کا کہنا ہے کہ وہ لوگ گھر پر ہی نسوار بناتے تھے اور جب وہ تھوڑی سی بڑی ہوئیں تو ان کی ہم عمر تمام لڑکیاں نسوار کھاتی تھیں اور یہ تو اس وقت رواج بھی تھا، چونکہ گل مرجانا کی والدہ، والد، بھائی اور بہنیں سبھی نسوار کھاتے تھے اس لئے ان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی نسوار کھانا شروع کر دیا اور آج 85 سال کی عمر میں بھی وہ نسوار کھاتی ہیں۔
کنڑ کی رہنے والی 80 سالہ لال پری، جنہیں اب وہاں کے تمام لوگ اماں کے نام سے بلاتے ہیں، کہتی ہیں کہ ان کی شادی 12 سال کی عمر میں ہوئی اور ان کے شوہر نسوار کھاتے تھے، جب وہ 16 سال کی ہوئیں تو ایک بچی کے ساتھ وہ بیوہ ہوئیں، چونکہ انہیں اپنے شوہر سے بہت محبت تھی اس لئے اس کی وفات پر دو دنوں تک وہ سوئی نہیں تو اس وقت کی بزرگ خواتین نے ان کو مشورہ دیا کہ نسوار کھا لو تو ایک تو نیند آ جائے گی دوسرے شوہر کی محبت ہمیشہ لال پری کے ساتھ رہے گی تو لال پری نے 16 سال کی عمر میں ہی شوہر کی محبت میں نسوار کھانا شروع کر دیا، وہ دن اور آج کا دن اماں نسوار کھاتی ہی نہیں بلکہ اس کا کاروبار بھی کرتی پیں۔