فیچرز اور انٹرویو

”مہمان آ جاتے تو گھر والے مجھے کہیں چھپا دیتے تھے”

ناہید جہانگیر سے

مہمان جو اللہ کی نعمت ہوتے ہیں لیکن میرے لئے ان کی آمد ایک مصیبت بن جاتی کیونکہ میرے گھر والے مجھے کہیں چھپا دیتے اور مہمانوں کے سامنے آنے پر پابندی عائد کرتے تھے۔

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں مقیم خواجہ سراؤں کے گرو فرزانہ ریاض، جو سال 2009 سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہیں، چارسدہ کے ایک گاؤں میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے، والدین نے ان کا نام ریاض رکھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی حرکات میں وہ تبدیلیاں نظر آئیں جو والدین کو باعث شرم نظر آنے لگیں۔

8 سال کی عمر میں تو بچہ ماں کی گود میں سوتا ہے لیکن ریاض کو 8 سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر دیرے/ڈیرے پر آنا پڑا۔

”خواجہ سرا پیدا ہونا گناہ نہیں اور نہ یہ خود کسی خواجہ سرا کے ہاتھ میں ہوتا ہے، یہ تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے جسے جو چاہے پیدا کرے لیکن اللہ تعالی کا شکر ہے جس نے انسان پیدا کیا اور ہاتھ پاؤں سلامت دیئے”، فرزانہ ریاض نے کہا۔

فرزانہ نے بتایا کہ سکول میں غلطی خواہ جس کسی کی بھی ہوتی مار انہیں کھانا پڑتی تھی، بچپن سے لے کر سکول تک یہی سوال سننے کو ملتا کہ لڑکا ہو کہ لڑکی، اوہو تم تو ہجڑے ہو، یہی بات سکول سے لے کر گلی محلے میں سنتے سنتے ریاض سے فرزانہ بن گئی اور شادی بیاہ اور اس طرح کی دیگر تقریبات میں ناچنا شروع کیا۔

8 سالہ ریاض سے فرزانہ بننے کے سفر میں گھر والوں نے کھبی نہیں پوچھا کہ ان کا بچہ مر گیا ہے کہ زندہ ہے لیکن فرزانہ کبھی کبھار ضرور اپنے گھر والوں کی چھپ کر خبر لیتی، فرزانہ کہتی ہیں کہ ایک دن خبر ملی کہ ان کی ماں اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں تو ان کا آخری دیدار تو نصیب میں نہیں تھا کیونکہ یہ حق تو ان سے چھین لیا گیا تھا۔

فرزانہ بھی انسان ہیں اور ان کے سینے میں بھی دل ہے، ساری زندگی تو ماں باپ کی محبت اور پیار کے لئے ترستی رہی لیکن والدہ کی قبر دیکنھے کی خواہش تو پوری کر سکتی تھی، معاشرے کے ڈر سے برقعہ پہن کر گئیں لیکن قبرستان جا کر بھی خالی ہاتھ لوٹیں، کون ان کو والدہ کی قبر کی نشان دہی کرواتا، وہاں بھی شاید ایسا لگا کہ کوئی چیخ کر کہہ رہا ہے یہ تو ہجڑا ہے۔ فرزانہ نے قبرستان میں دل ہلکا کیا جہاں ان کی سسکیوں کی اواز اللہ کے سوا کوئی نہیں سن سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں، شاید اللہ تعالی کا کوئی راز ضرور اس میں چھپا ہے جو دنیا میں خواجہ سرا کو بھی جنم دیتا ہے لیکن اس میں ہیجڑے کا کوئی قصور نہیں ہے، ”ہمارے معاشرے کو بھی اللہ کے اس راز کو تسلیم کر کے ہیجڑوں کو عزت دینی چاہئے کیونکہ یہ تیسر جنس تو کسی کے بھی گھر میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

محبت کے بارے میں فرزانہ نے کہا خواجہ سرا سے کوئی بھی پیار یا محبت نہیں کرتا، محبت تو ماں کرتی ہے جو انہوں نے 8 سال کے بعد دیکھی ہی نہیں، ان کو تو ماں کی قبر بھی نہیں معلوم۔

فرزانہ نے کہا کہ وہ 4 بہنیں تھیں، ان کو اتنا یاد ہے، والدین نے تو کبھی بھی ان کا نہیں پوچھا لیکن بہنیں اکثر ان کا حال چال پوچھ لیتی تھیں جن میں سے اب دو کا انتقال ہو گیا ہے۔

ریاض سے فرزانہ تک کے سفر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فرزانہ کل بھی ہیجڑا تھا آج بھی ہیجڑا ہے اور شاید جب وہ مر جائے تو لوگ یہی کہیں گے یہ تو ہیجڑے کی قبر ہے اور وہاں بھی کوئی فرزانہ کو بخش نہ دے کیونکہ فرزانہ تو اپنی مرضی سے ہیجڑا پیدا ہوئی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button