”لڑکی زیادہ پڑھ لکھ گئی تو سمجھو ہاتھ سے نکل گئی”
سی جے شمائلہ آفریدی
مرد اور عورت معاشرے کے دو اہم ستون ہیں اور معاشرے کی بقا کیلئے دونوں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ عورت ایک زندہ معاشرہ تخلیق کرنے میں بہت ذیادہ مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت بنیادی حقوق سے محروم تھی یہاں تک کہ بہت سی قوموں میں بیٹی کی پیدائش کے بعد قبر میں زندہ دفنانا ایک رواج اختیار بن کر رہ گیا تھا۔ مگر عورت اتنی مظلوم تھی کہ وہ اپنے حق کے لئے آواز بلند نہ کر سکی۔
ایسے میں جب چاروں طرف عورت کے حقوق کو پامال کیا جا رہا تھا تو اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو اسلام کی نعمت دے کر بھیجا اور عورت کو وہ مقام دیا جس کی کوئی مثل یا نظیر نہیں ملتی۔ سماج اکسویں صدی میں داخل ہو چکا مگر آج بھی ہمارے سوچنے کا انداز صدیوں پیچھے ہے۔ ہمارے سماج میں خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے صدیوں پرانا قبائلی کلچر اور انتہا پسند مذہبی سوچ و رواج اور رسومات ابھی تک موجود ہیں۔
دنیا کے پسماندہ ممالک میں خواتین کی صورتحال سنگین ہوتی چلی جا رہی ہے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان میں بھی عورت کے حالات زندگی اور ان کے ساتھ سماجی رویے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
اسلام نے ہر طرح کے حقوق عورت کو دیئے ہیں، تعلیم، علم کا حصول مرد کے ساتھ ساتھ عورت پر بھی فرض قرار دیا ہے۔ ایک عورت کی تعلیم سے سارا خاندان ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ استفادہ کرتا ہے، عورت پڑھی لکھی ہو گی تو معاشرہ بھی پڑھا لکھا ہو گا۔
پاکستانی سماج میں دوسرے حقوق کی طرح عورت اور مرد کی تعلیم میں بھی تفریق کی جاتی ہے، آج بھی عورت سے زیادہ مرد کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ لڑکوں کی تعلیم کا سوچا جاتا ہے۔ عورتوں کی تعلیم سے محرومی کا رجحان دیہی علاقوں میں بہت عام ہے جہاں پر اعلی تعلیم دینے کے بجائے گھریلو کام اور کم عمری کی شادی کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
شادی بھی زندگی کا ایک حصہ تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستانی سماج میں لڑکی کی تعلیم کے حوالے سے جو متضاد خیالات و تصورات جہالت کی بنا پر پائے جاتے ہیں وہ تشویشناک اور افسردہ ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سماج میں لڑکیوں کے لئے اعلی تعلیم سے متعلق اچھے خیالات کو رد کرکے نہایت دقیانوسی خیالات پیدا کردیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں نسل درنسل خاص طور پر لڑکیوں کو اعلی تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے۔ لڑکیوں کے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو پرانے رسم وراج، رسومات، جاہلانہ سوچ وبچار کے باعث کچل دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے بیشتر خاندانوں میں بچیوں کی بلوغت کی عمر کو پہچنے پر ان کی شادی کی فکر شروع ہوجاتی ہے۔ ایک لڑکی کو یہ سوچ کر رخصت کر دیا جاتا ہے کہ اعلی تعلیم حاصل کرکے بھی وہی گھر کے برتن ہی دھوئے گی، ہانڈی بنائے گی اور خاندان کے افراد کی خدمت ہی کرے گی۔ اگر لڑکی زیادہ عمر کو پہنچے گی تو اس کا کوئی رشتہ نہیں آئے گا۔ بعض خاندانوں میں تو اعلی تعلیم حاصل کرنے پر ہی لڑکی کے کردار پر شک کیا جاتا ہے۔ لڑکی جب کالج یا یونیورسٹی جاتی ہے تو اس کے کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں زیادہ تعلیم یافتہ عورت ہاتھ سے نکل جاتی ہے، کالج یونی کی لڑکیاں اچھے کردار کی حامل نہیں ہوتیں، اعلی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں آزاد خیال ہو جاتی ہیں، عورت کو چار دیواری کے اندر محدود رکھنا چاہیے۔
معاشرے کا انتہائی من گھڑت خیال ایک یہ بھی ہے کہ بیشتر خاندانوں میں لڑکی کے کالج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے پر رشتہ داروں کی طرف سے طعنہ دیا جاتا ہے، اکثر اوقات شادی کے بعد بھی سسرال والوں کی طرف سے ان پر غیر مردوں سے تعلقات رکھنے کا بہتان لگایا جاتا ہے۔ اسی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے معاشرے میں لاتعداد لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں اور ان غلط تصورات کی وجہ سے والدین بھی مجبور ہو کر اپنی بچیوں کو گھر پر بٹھا دیتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے روشن مستقبل کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔
اکسویں صدی میں بھی ایسے خاندان موجود ہیں جنہوں نے اپنی بچیوں کو سکول تک نہیں دکھایا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ معاشرے میں موجود پڑھے لکھے مرد بھی عورتوں کی تعلیم کے متعلق نہایت دقیانوسی خیالات رکھتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے لوگوں کے سوچنے کے انداز کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلی تعلیم لڑکیوں میں آزاد خیالی پیدا نہیں کرتی بلکہ تعلیم تو عورت کو سنوارتی ہے اور اپنے حقوق سے متعلق آگاہی دیتی ہے۔ عورتوں کی تعلیم نہ صرف خاندان بلکہ پورے معاشرے کی ترقی اور فلاح وبہبود کی ضامن ہوتی ہے۔
ایک تعلیم یافتہ ماں اپنی اولاد کی بہتر تربیت کرسکتی ہے۔ وقت پڑنے پر اپنے بچوں کی کفالت کرسکتی ہے۔ تعلیم عورت کو خود اعتمادی عطا کرتی ہے۔ مرد کی تعلیم صرف مرد کو فائدہ دیتی ہے لیکن عورت کی تعلیم اس کی سات نسلوں کو سنوارتی دیتی ہے۔ جس طرح مرد کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اسی طرح عورت کا بھی تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔