انٹرٹینمنٹ

شکر میٹھے کو کہتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ شکرنامہ کیا ہے؟

عثمان خان

ہمارے درمیان جب شیرینی کی بات کسی محفل یا مجلس میں ہوتی ہے تو ذہن فوراً شادی، منگی یا خوشی کی کسی اور بات کی طرف چلا جاتا ہے کیونکہ شیرینی بنیادی طور پر خوشی کے مواقع پر تقسیم کی جاتی ہے لیکن موسیقی کی دنیا میں صدیوں سے ایک رسم چلی آرہی ہے جو ‘شکر نامے’ کے نام سے مشہور ہے لیکن اس سے زیادہ تر لوگوں مانوس نہیں ہیں اور نہ مطبوعات میں اس کے بارے میں کام ہوا ہے۔

موسیقی کی دنیا میں جب خوشی کی بات ہوتی ہے تو باقاعدہ طور پر موسیقی کے علم کا ایک دروازہ اس سے کھلتا ہے، شاگرد آتا ہے اور اپنے استاد کے حق میں عاجزی بیان کرتا ہے اور استاد اس کو شاگردی میں قبول کرتا ہے اور اس کے بعد ان کے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ بن جاتا ہے۔

شکر نامے کے بارے میں مزید تفصیل پیش خدمت ہے۔

شکر نامے کا پس منظر

برصغیر پاک و ہند میں شکر نامے کی رسم تقریباً چھ سات سو سال سے چلی آرہی ہے اور بنیادی طور پر یہ ہندی زبان کا لفظ ہے۔ موسیقی کے میدان میں جب استادی اور شاگردی کا بندھن جس دن ہوتا تھا تو اس مجلس کو شکر نامہ کہا جاتا تھا، پشتو میں ہم اس کو ‘شکرہ’ کہتے ہیں۔

برصغیر میں شکرنامے کی رسم سینکڑوں سال پہلے ہندو اور مسلمان کیا کرتے تھے لیکن ہندو برادری جب یہ رسم ادا کرتی تو اس میں کچھ غیر مناسب الفاظ پڑھے جاتے تھے جیسا کے اپنے کچھ بھگوانوں کے نام اس میں یاد کرتے، اس لئے مسلمانوں نے کچھ مدت کیلئے یہ رسم چھوڑ دی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد تصوف کی دنیا کے درخشندہ ستارے اور نامور موسیقار امیر خسرو نے اپنے زمانے میں شکر نامے کی رسم پھر سے شروع کی لیکن اس کا جو خطبہ تھا اس کے الفاظ بدل دیئے اور دعائیہ الفاظ اس میں شامل کئے تھے۔

امیر خسرو کا مختصر تعارف

امیر خسرو کا اپنا نام ابو الحسن یمن الدین تھا۔ امیر خسرو کا خطاب اس زمانے ایک بادشاہ نے ان کو دیا تھا جس کے معنی بھی بادشاہ کے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے مرشد نے آپ کو طوطی ہند کا خطاب بھی دیا تھا۔ آپ ہندوستان کے شہر اتر پردیش کے علاقے پٹیالی میں 253 میں پیدا ہوئے تھے، 325 میں ان کا وصال ہوا لیکن 72 سال کی عمر میں انھوں نے اس طرح کا کام کیا کہ آج تک ان کا نام زندہ ہے۔

آپ کے والد گرامی سیف الدین بلخی ترکی نے منگولوں کے حملوں کی وجہ سے ہندوستان ہجرت کی تھی۔

تصوف، شاعری اور موسیقی۔۔ امیر خسرو کی زندگی کے تین نمایاں گوشے

آپ سلطان مشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید تھے اور آٹھ سال کی عمر میں آپ نے فارسی زبان میں شاعری شروع کی تھی اور مدرسے میں اپنا کلام سناتے تھے تو استاد حیران ہوتے تھے کہ اس عمر میں ایسی پختہ شاعری۔

برصغیر میں ان کی شاعری کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کے غالب ہندوستان میں فارسی کا کوئی دوسرا شاعر نہیں مانتے لیکن امیر خسرو کے بارے میں فرماتے تھے کہ

غالب میرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو

پیتا ہوں دھو کے خسرو شیرین سخن کے پاؤں

غالب اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میری شاعری میں مزہ اور لطف کیوں نہیں ہو گا کیوں کہ میں نے امیر خسرو کے پاؤں دھو کر وہ پانی پیا ہے۔

حضرت نظام الدین اولیاء کے مریدوں میں وہ ان کے انتہائی قریب تھے اور حد سے زیادہ ان سے شفقت اور پیار فرماتے تھے اور محبت سے آپ ان کو ترک سے پکارتے تھے جس کے معنی مٹھاس کے ہیں۔ ان کے درمیان محبت کا یہ عالم تھا حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے کہ اگر ایک قبر میں دو بندے دفن کرنا جائز ہوتے تو امیر خسرو میرے ساتھ دفن ہوتا۔

ایک کامل صوفی اور شاعر کے علاوہ امیر خسرو ایک موسیقار بھی تھے اور بہت سے راگ آپ نے ایجاد کئے تھے جو ان کے نام سے منسوب ہیں۔ قوالی، غزل، مثنوی اور خاص کر قوامی میں آپ نے بہت راگ ایجاد کئے تھے۔

شکر نامے کی محفل کے احوال

جب موسیقی کی دنیا میں ایک شاگرد اپنے آپ کو استاد کے سپرد کرتا ہے، عاجزی اختیار کرتا ہے کلاسیکی موسیقی کے راگ سیکھنے کیلئے تو اس کے لئے باقاعدہ طور پر ایک روایت ہوتی ہے جس کو شکرہ کہتے ہیں یا شکر نامہ۔

شکر نامے کے لئے ایک محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لئے لازمی ہے کہ اس مجلس میں دس نامور موسیقار موجود ہوں جو کہ گواہ کے طور پر موجود ہوتے ہیں، دس سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن دس سے کم نہیں، محفل کے درمیان میں شیرینی یعنی مٹھائی پڑی ہوتی ہے۔ موسیقی کا استاد باقاعدہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنا فلاں راگ اس شاگرد کو دیتا ہے۔

رسم شروع ہونے سے پہلے باقاعدہ طور پر تلاوت کلام پاک ہوتی ہے اور اس کے بعد شکرنامہ شروع ہوتا ہے۔ اس رسم کے درمیان موسیقی کے الات مجلس سے باہر تلات کے احترام میں الٹے رکھے جاتے ہیں اور ان پر چادر اوڑھ لی جاتی ہے۔

شکر نامے میں استاد شاکرد کے ہاتھ پر ایک پٹی  باندھتا ہے جس کو موسیقی کی زبان میں ‘گانا’ کہا جاتا ہے لیکن پہلے یہ پٹی یا دھاگہ مجلس میں موجود موسیقی کے استادوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا آخر میں استاد کے ہاتھ دیا جاتا ہے اور پھر استاد اسے شاگرد کے ہاتھ پر باندھ لیتا ہے۔

لیکن موسیقی کا استاد اس پٹی پر کچھ دعائیہ الفاظ پڑھتا ہے، شاگرد کے روشن مستقبل کیلئے اجتماعی دعا کے بعد استاد پٹی شاگرد کو پہناتا ہے اور اس کے بعد دونوں کے درمیاں باپ اور بیٹے کا رشتہ بن جاتا ہے۔

جو شاگرد استاد سے راگ حاصل کرتا ہے تو وہ اس کی ملکیت بن جاتی ہے کیونکہ پھر شاگرد یہ راگ، جائیداد یا ملکیت دوسرے شاگرد کو منتقل کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔

شکر نامے کی مجلس میں پھر مرحلہ آتا ہے راگ سیکھنے کا کیونکہ موسیقی راگ راگ نیتی ایک مشکل کام ہوتا ہے، پٹی باندھے کے بعد استاد جو راگ شاگرد کو دیتا ہے استاد خود پندرہ بیس منٹ تک موسیقی کے ایک آلے پر وہ راگ بجاتا ہے کیوں کہ اس میں آواز نہیں ہوتی صرف ساز ہوتا ہے۔

اس دوران موجود سب لوگ خاموش ہوتے ہیں، محفل پر سکوت طاری ہوتا ہے اور اس دوران شاگرد بہت غور سے مشاہدہ کرتا ہے اپنے استاد کا۔

پرانے زمانے میں راگ موسیقی کے پرانے آلات ‘سریندہ’، ستار وغیرہ پر بجایا جاتا لیکن آج کل ہارمونیم پر بجایا جاتا ہے اور اس کے بعد محفل برخاست ہوتی ہے۔

خیبر پختونخواہ میں یہ رسم تقریباً پندہ بس سال سے نہیں ہو رہی تھی لیکن کچھ دن پہلے صوابی ضلع سے تعلق رکھنے والے نامور گلوکار راشد نے باقاعدہ طور پر یہ روایت شکر نامہ شروع کی ہے، راشد تقریباً پندرہ سال سے پشتو موسیقی سے وابستہ ہیں اور پشاور یونیورسٹی سے موسیقی میں پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں۔

راشد خان کے مطابق چونکہ پشتو موسیقی فوک موسیقی یعنی ‘اولسی’ موسیقی ہے اس میں راگوں کا استعمال نہیں ہوتا، سادہ رباب، طبلہ یا سازوں سے ہم فوک موسیقی کرتے ہیں لیکن کلاسیکی میں راگ بہت لازم ہوتا ہے لیکن جب میں نے پشتو موسیقی میں راگ کا استعمال کیا تو مجھے اس کی اہیمت کا پتہ چلا اور یہ کہ موسیقی کی بنیاد راگوں پر ہے۔

راشد خان کا شکر نامہ حال ہی میں پشاور کے علاقے صدر میں سردار علی ٹکر سٹوڈیو میں ہوا جس میں نامور موسیقاروں احمد گل استاد، استاد نذیر گل، فضل وہاب درد نے شرکت کی تھی۔

راشد خان نے باقاعدہ طور راجھستانی گھرانے کے استاد نواب علی خان کی شاگردی شروع کی ہے جو نامور موسیقار لال خان راجھستانی کے فرزند ہیں۔

راشد خان نے گوری نامی راگ سیکھنا شروع کیا ہے اپنے شکرنامے میں۔

راشد خان کے مطابق شکرنامہ صدیوں پرانی روایت ہے جس میں کلاسیکی موسیقی ایک جنریشن سے دوسری جنریشن کو منتقل ہوتی ہے۔

اس موقع پر نواب علی خان استاد کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں بہت عرصے بعد شکرنامے کی شروعات نیک شگون ہے کیونکہ اس علاقے کے لوگ موسیقی سے پیار کرتے ہیں، راگ سیکھنا بہت ضروری ہے ہر قسم کی موسیقی کیلئے بشمول فوگ موسیقی۔

ان کے مطابق شکر نامے کا بنیادی تعلق ہندو مذہب سے ہے لیکن اس طرح کی مجالسو میں کلاسیکی موسیقی کے نئے دھن سامنے آتے ہیں۔

نواب علی خان استاد کے والد لال خان استاد مرحوم برصغیر کے بٹوارے کے وقت راجھستان سے ڈیرہ اسماعیل منتقل ہوئے تھے اور اس کے بعد پشاور آئے تھے، اب بھی ان کے بیٹے نواب علی خان استاد پشاور کے علاقے پیر غیب میں آباد ہیں۔

لال خان استاد (مرحوم) نے تین سو کے قریب راگ یاد کئے تھے اور نواب علی خان استاد کے مطابق انھوں نے اپنے والد سے تقریباً سو راگ سیکھے ہیں، آج کل فنکار مشکل سے پانچ یا چھ راگ یاد کرتا ہے۔

شکر نامہ یا استاد سے راگ سیکھنے کے اس عمل میں کوئی فیس یا پیسے کا عمل دخل نہیں کہ استاد شاگرد سے رقم کا مطالبہ کرے البتہ اگر استاد کی مالی حالت ٹھیک نہ ہو تو شاگرد تحفے کے طور پر مدد کر سکتا ہے جبکہ یہ حق استاد کو حاصل ہے کہ وہ اس مدد یا تحفے کو قبول یا انکار کرتا ہے۔

فوک اور کلاسیکی موسیقی میں فرق

فوک موسیقی اصل میں ‘اولسی’ موسیقی ہوتی ہے۔ اس کی شاعری بنیادی طور پر ایک استاد سے منسوب نہیں ہوتی۔ اس کے جو ساز اور ٹیون کا کوئی معلوم شخص/ستاد نہیں ہے جس طرح پشتو ادب میں ٹپہ ہے اس کا شاعر معلوم نہیں ہوتا ہے اس لئے فوک موسیقی کا موجد بھی معلوم نہیں ہے۔

اس کے علاوہ فوک موسیقی مشکل بھی نہیں ہے آسان ہے۔

اس کے مقابلے میں کلاسیکی موسیقی بہت مشکل ہے۔ اس کا آغاز بھی معلوم ہے، اس کی نوٹیشن ہوتی ہے، اس کی باقاعدہ زبان ظاہر ہے اور معلوم ہے، ساگا پارے ما دی نیسا اس کیساتھ پھر اور راگ ایک دوسرے سے شامل کرتی ہے جو کے سینکڑوں نزاکتیں رکھتی ہے اور اس کی بہت قسمیں ہیں۔

کلاسیکی موسیقی مختلف خاندان سے تعلق رکھتی ہے کہ کون سا راگ کس خاندان نے ایجاد کیا ہے اور ان کے سلسلے میں چلا آتا ہے اور باقاعدہ وراثت میں شاگرد ایک جنریشن سے دوسری جنریشن کو منتقل کرتا ہے۔

اس کے علاوہ سیمی کلاسیکل میں غزل ٹھمری، یہ سیمی کلاسیکل میں آتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button