میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ایڈمیشن ٹیسٹ سے پی ایم ڈی سی اربوں روپے کما رہے ہیں، کے پی ڈاکٹرز ایسو سی ایشن
محمد دانیال عزیز
امسال ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں حصہ لینے والے طالب علم غفران احمد (فرضی نام) کا کہنا ہے ٹیسٹ رجسٹریشن فیس ناقابل برداشت ہے، ہمارے کئی دوست اس لئے ٹیسٹ نہیں دینا چاہتے کیونکہ وہ فیس برداشت نہیں کرسکتے۔ غفران احمد نے کہا کہ طلباء کی آسانی کے لئے ایم ڈی کیٹ ٹیس فیس میں کمی کی جائے، تاکہ کوئی خواہشمند طالب علم ٹیسٹ دینے سے قاصر نہ ہو۔
خیبر پختونخوا ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر اسفندیار نے ایم ڈی کیٹ فیس سے متعلق اپنے بیان میں کہا کہ بیشتر بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہے، ایڈمیشن فیس برداشت نہ کرنے کے باعث بھی کئی طلبہ ٹیسٹ سے رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی سی طلبہ سے 10 گنا زیادہ فیس وصول کر رہی ہیں، ڈاکٹر اسفندیار نے کہا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل پہلے 6 ہزار روپے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کی رجسٹریشن کے لئے وصول کر رہے تھے تاہم اب اس میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ فی سٹوڈنٹ ٹیسٹ کا خرچہ 1 ہزار سے زیادہ نہیں ہے تاہم ایم ڈی کیٹ رجسٹریشن کے لئے نارمل فیس 8 ہزار جبکہ لیٹ فیس 12 ہزار روپے وصول کئے جارہے ہیں۔انہوں نےمزید کہا کہ پی ایم ڈی سی کے زیادہ چارجز لینے کا مطلب سمجھ نہیں آریا، پی ایم ڈی سی کو چاہیئے کہ ایم ڈی کیٹ رجسٹریشن فیس میں کمی لائے نہ کہ بڑھائے۔
ڈاکٹر اسفندیار نے کہا کہ پی ایم ڈی سی کی بحالی کے لئے ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے بے پناہ قربانیاں دی ہے، پی ایم ڈی سی طلبہ کے ریلیف کے لئے بنایا گیا ہے اور وہ اپنا کرادار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں یہاں الیکٹیڈ لوگ فیصلہ لیتے تھے تب سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا تاہم جب سے سیلیکٹڈ لوگ فیصلے کرنے لگے ہیں تو طلبا اور میڈیکل کالجز کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر اسفندیار کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ایم ڈی کیٹ پی ایم ڈی سی کے تحت کرانا چاہتی ہے تو ادارے کو زمہ دار لوگوں کے حوالے کیا جائے۔ اس ٹیسٹ سے اربوں روپے کمائے جارہے ہیں جو طلبہ کی جیبوں پر ڈاکے کے مترادف ہے۔
ایگزیکٹو ڈائیرکٹر ایٹا ” ایجوکیشنل ٹیسٹینگ اینڈ ایوالوشن ایجنسی” امتیاز ایوب کے مطابق گزشتہ سال ایم ڈی کیٹ فی سٹوڈنٹ خرچہ 8 سو سے 1 ہزار روپے آیا تھا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں ایٹا کو 46 ہزار طلباء کے 46 لاکھ روپے دیئے گئے تھے۔ امتیاز ایوب نے کہا کہ ان پیسوں میں طلبہ کے لئے امتحانی مراکز، سٹاف اور دیگر انتظامات کئے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ سال منعقد ہونے والے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں 46 ہزار طلباء کے پی ایم ڈی سی اور کے ایم یو کو 3 کروڑ 60 لاکھ روپے موصول ہوئے تھے۔
وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر ضیاء الحق نے اس متعلق اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ امیدواروں سے ٹیسٹ کی تمام رقم پی ایم ڈی سی وصول کرتی ہے، کے ایم یو کا کام پی ایم ڈی سی کے تحت ٹیسٹ منعقد کرانا ہے، اپلائی کا عمل پی ایم ڈی سی کے تحت کیا جاتا ہے۔
پی ایم ڈی سی کی جانب سے ٹیسٹ سے پہلے ہمیں کچھ ایڈوانس رقم دی جاتی ہے، جبکہ ٹیسٹ پرخرچ ہونے والی رقم کی پوری ادائیگی ٹیسٹ کے بعد کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ضیاع الحق نے کہا کہ امیدواروں سے ٹیسٹ کی تمام رقم پی ایم ڈی سی وصول کرتی ہے۔
میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ کی فیس میں حالیہ اضافے سے متعلق خیبر پختونخوا کی وزیر برائے اعلی تعلیم مینا خان آفریدی نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے نام خط لکھا جس میں کہا گیا کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے انٹری ٹسٹ فیس 6000 سے بڑھا کر 8000 کردی گئی ہے جبکہ انٹری ٹسٹ میں فی امیدوار پر اخراجات 1500 روپے سے 2000 روپے آتے ہیں۔
انہوں نے خط میں کہا کہ صوبہ طویل عرصے سے جنگ زدہ اور غیر مستحکم صورت حال کا شکار ہے، زیادہ تر آبادی غربت کی لکیر سے نیچھے زندگی بسر کر رہی ہیں، بھاری فیس کی ادائیگی مشکل ہے۔ خط میں کہا گیا کہ اسی وجہ سے کئی غریب طلباء میڈکل کالجز میں داخلہ لینے کے لئے ٹیسٹ سے بھی رہ جاتے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ فیس میں اضافہ کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے اور سابق فیس میں بھی کمی لائی جائے۔ جس سے بے شمار غریب خاندانوں کو فائدہ ہوگا اور تعلیم کو فروغ ملے گی۔
رجسٹرار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر شائستہ فیصل نے اس معاملے پر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیسٹ کنڈکٹ کرانے پر جو خرچہ آتا ہے وہی طلبہ سے وصول کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر شائستہ نے کہا کہ ٹیسٹ کنڈکٹ کرانے کے لیے دو ماہ قبل کام شروع ہوتا ہے، امتحانی مراکز، سٹاف، پرچے، پیپرز بینک، ٹرانسپورٹ پر بھاری خرچہ آتا ہے۔
رجسٹرار پی ایم ڈی سی نے کہا کہ یہ فیس صرف ٹیسٹ کی نہیں لی جاتی بلکہ یہ مکمل پراسس کی لی جاتی ہے۔ حالیہ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری اولین ترجیح ہے کہ ہم ٹیسٹ شفاف طریقے سے کنڈکٹ کروائے، اسلئے مکمل انتظامات کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم کا خط تاحال مجھے موصول نہیں ہوا، جب موصول ہوگا تو اسکا جواب بھی دیا جائے گا۔