رانی عندلیب
کچھ دن قبل مجھے اندازہ ہوا کہ والدین سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیویٹ سکولوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔حالانکہ پرائیویٹ سکولوں میں فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔ میں پورے صوبے کے سرکاری سکولوں کی بات نہیں کر رہی۔ بس صرف ایک طبقے کی بات کر رہی ہوں جیسے ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کرتی ہے اسی طرح چند اساتذہ بھی ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سرکاری سکولوں کا نام بدنام ہو جاتا ہے۔
7مئی کو اپنی کزن کے ساتھ پشاور کے ایک سرکاری سکول گئی تاکہ اس کا سکول میں داخلہ کروا سکوں لیکن وہاں کیا گئی۔ اس سکول کی چند استانیوں کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ بچوں کو کیا تربیت دیں گی اور اخلاقیات کا درس دیں گی۔ وہ تو خود اپنے اخلاقیات کہیں بیچ کے آئی ہوئی تھی۔ انتہائی غیر مہذب طریقے سے میرے ساتھ پیش ائی میں نے استانی سے کہاکہ میں نے اپنی کزن کا کلاس نہم میں داخلہ کروانا ہے تو استانی نے مجھ سے کہا دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ ہم ہر ایرے غیر کو اسکول میں نہیں داخلہ دیں گے اور یہاں پر تو داخلہ دینا بند ہے میں نے پوچھاکیوں آس پاس علاقوں کی بچیوں کو داخلہ نہیں دیں گے تو وہ کہاں جائیں گی؟ تو اس ٹیچر نے مجھے کہا۔ پتہ نہیں یہاں سے دفع ہو جاؤ استاد کا درجہ تو والدین سے بھی اونچا ہے۔
قران مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معلم بنا کر بھیجا ہے یعنی والدین سے بھی اونچا درجہ اگر کسی کا ہے تو وہ صرف اور صرف استاد ہے۔ لیکن اگر استاد ہی غیر اخلاقی انداز سے پیش ائیں جو کہ ہمارے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں تو بچے ان سے کیا سیکھیں گے۔
میں نے استانی سے کہا آپ مجھے ایک پیج پر لکھ کر دے دے کہ یہاں سے دفع ہو جاؤ اور ہم اپ کو یہاں پر داخلہ نہیں دے سکتے تو انہوں نے کہا کیوں اخبار میں میرے پیچھے اشتہار دوگی کیا جو بھی کر سکتی ہو کر لو میں نے بھی کہا چلیں صحیح ہیں آپ مجھے لکھ کر دے۔ کہ اپ کا کیا نام ہے اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ ائندہ مت آنا۔ کیونکہ میں اپ لوگوں کے خلاف کاروائی کروں گی۔ ایک دم سے وہ استانی میڈم کے پاس گئی پھر دس 15 منٹ کے بعد وہاں سے واپس ائی تو مجھے کہا۔
میں اپ کی کزن کو اپنی سکول میں داخلہ تو دے دوں گی لیکن اس کو کلاس سے باہر بٹھاؤں گی کیونکہ ہمارے سکول میں بجلی نہیں ہوتی۔ میں نے پوچھا یہ جو سولر لگا ہے تو کیا حکومت نے سکول کو یہ نہیں دیا؟ اس استانی نے کہا حکومت اتنا اچھی ہے کہ وہ فری میں ہمیں سولر دے دے یہ تو ہم تمام اساتذہ نے پیسے ڈال کر اپنے لیے خود خریدا ہے۔ اور ہاں ہر کلاس میں سو سے اوپر بچیاں ہیں ہم ان کو صحیح طریقے سے نہیں پڑھا سکتے کیونکہ حکومت نے ہمارے اوپر ایک بوجھ سا ڈالا ہے۔ میں نے جواب میں یہ کہا کہ اگر اپ لوگ پڑھا نہیں سکتے تو استعفی دے دیں بہت ساری لڑکیاں جو تعلیم یافتہ ہیں وہ آجائیں گی۔ اس استانی نے میرے ساتھ بہت بحث کی لیکن مجھے خود وہ سکول پسند نہیں آیا اس لیے اپنی کزن کو دوسرے سرکاری سکول لے کر گئی۔
وہ بھی سرکاری سکول تھا اور اس میں بھی سرکاری اساتذہ تھی لیکن ان کے اخلاق اتنے اچھے تھے کہ میں نے وہاں پر اپنی کزن کا داخلہ کروا دیا۔ آتے ہوئے میں یہ سوچ رہی تھی کہ اگر استانیاں بچیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہیں تو ان کا دل کیسے لگے گا تعلیم حاصل کرنے میں۔
اگر اس طرح کا رویہ اساتذہ غریب والدین کے ساتھ بھی کریں تو وہ اپنی بچیوں کو گھر میں ہی بٹھا دیں گے کیونکہ کچھ تو ان اساتذہ کا غیر اخلاقی رویہ ہوتا ہے دوسرا انہیں بے عزت کر کے سکولوں سے نکالا جاتا ہے کہ یہاں پر نہ اؤ۔ غریب والدین کی تو اتنی استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ پرائیویٹ سکولوں کی فیس بھرتے رہیں چنانچہ ان کی بچیاں گھر میں ہی بیٹھ جاتی ہیں۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔