تعلیم

"پشتو کلاس کیلئے حکم تو جاری ہوا ہے مگر کتاب نہیں”

 

محمد بلال یاسر

باجوڑ عمرے ماموند کے احمد خان گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول برخلوزو میں گیارہویں کا طالب علم ہے۔ پشتو کو لازمی مضمون قرار دیئے جانے کے بارے میں اس نے بتایا کہ انہیں بہت زیادہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ اب وہ کیا کریں کیونکہ اس حوالے سے ان کی سکول انتظامیہ اساتذہ بھی بے بس ہیں۔ "سکول اساتذہ کہتے ہیں کہ اس کلاس کیلئے حکم تو جاری ہوا ہے مگر کتاب نہیں”۔ احمد نے بتایا کہ امتحان سے قبل نصاب کیسے پورا ہوسکے گا جبکہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود انہیں کتاب کا علم نہ ہوسکا۔

محکمہ تعلیم نے ایک ماہ قبل تمام سرکاری و پرائیویٹ سکولوں میں پشتو زبان کے مضمون کو بارویں جماعت تک لازمی پڑھانے کی تحریری ہدایات کی تھیں۔ تاہم بیشتر سکولوں میں ان ہدایات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ڈی ای اوز کو جاری ایک مراسلے میں محکم تعلیم کے اعلیٰ حکام نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ مقامی زبان پشتو کوسکولوں میں فی الحال لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ عدم عملدرآمد پر متعلقہ ضلع کے ڈی ای او کے خلاف انضباطی کاروائی ہوگی۔

باجوڑ میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور پشتو زبان کے معروف محقق ، ادیب اور لکھاری مولانا خان زیب نے اس بارے میں بتایا کہ یہ مسئلہ دراصل کئی سال پرانا ہے۔ جب 2012 میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی تو صوبائی اسمبلی سے یہ قانون پاس ہوا تھا کہ مادری زبانوں کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے پھر اس میں عدالتی حکم بھی جاری ہوا مگر معاملہ سرد خانے کی نظر ہوگیا تھا۔ اب بلا آخر یہ حکم نامہ تمام اضلاع کو مل چکا ہے جو کہ بہت زیادہ خوش آئند امر ہے۔ ہم تمام نجی سکولوں کے ذمہ داران سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی مادری زبان کے حوالے سے اس حکمنامے پر عملدرآمد کرائیں۔ ساتھ ہی ہر سکول میں پشتو سبجکٹ کے ایک استاد کو بھی بھرتی کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت ہی بنیادی اہمیت کی حامل بات ہے۔ یونیسکو کے عالمی قانون کے تحت پرائمری تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنا بچے کا بنیادی حق ہے جس سے بچے کے قدرتی صلاحیتوں کو تقویت ملتی ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں اس حکم نامے کو نافذ العمل کیا جائے ، اس کے ساتھ ساتھ ہر تعلیمی ادارے میں پشتو زبان ( مادری زبان ) کی بھی ضرورت ہے۔ اس سے پشتو زبان کو بھی تقویت ملے گی اور بہت سارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار میسر آئے گا اور بچوں کو اپنے مادری زبان میں سیکھنے اور پڑھنے کی سہولت مل پائے گی۔ تعلیمی لحاظ سے اس کے بہت زیادہ فوائد ہیں۔

’’مدر ٹنگز‘‘ کے نام سے بنا پلیٹ فارم پختونخوا کی تمام زبانوں کے نمائندہ گان پر مشتمل ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے ریجنل لینگویجز اتھارٹی ایکٹ پر عمل در آمد کی جدوجہد کررہا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ایک سرکردہ رہنما حیات روغانی ہیں جو مفکورہ کے نام سے ایک اہم نشریاتی نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں طویل جدوجہد کے نتیجے میں 26 جنوری 2023 کو جاری ہونے والے حکم نامے میں صرف پانچ مادری زبانوں پشتو ، ہندکو ، سرائیکی اور کھوار ( چترالی زبان ) چار زبانوں کے نصاب تیار کیے جاچکے ہیں جبکہ کوہستانی یا شینا زبان کا نصاب اب تک تیار نہیں ہوا۔

اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر باجوڑ ارباب شیرین زادہ نے بتایا کہ اس بارے میں انہیں لیٹر موصول ہوئے ہیں جس کے جواب میں انہوں نے رپورٹ بھی بھیج دی ہے اور انہوں نے تمام سکولوں کو ہدایات جاری کردی ہے کہ وہ بارہویں تک تمام جماعتوں میں مقامی مادری زبان پشتو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھائیں لیکن نویں دسویں جماعت میں فی الحال انکے لیے یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ پورے ضلع کی سطح پر تمام ہائی سکولز میں سنگل سٹاف ہے۔ البتہ آٹھویں جماعت سے نیچے کلاسز اور فرسٹ ایئر سیکنڈ ایئر میں مواقع ہیں کچھ میں پڑھانا شروع کردیا ہے۔ مگر سبھی کے پاس سہولت نہیں کہیں پڑھانے والے کہیں نصابی کتب نہیں اور کہیں ٹائم ٹیبل کا مسئلہ ۔ ہم تمام سکولوں پر لازم کرچکے ہیں ، امید ہے آئندہ تعلیمی سال سے تمام سکولوں میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ریڈیو پختونخوا باجوڑ کے انچارج ، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ، شاعر اور نقاد فطرت بونیری نے مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں تو وہ اپنی بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں حاصل کرتے ہیں جب وہ اپنی مادری زبان پر عبور حاصل کرلیتے ہیں تو ان کیلئے دیگر زبانیں سیکھنا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔ اگر ان مادری زبانوں کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا گیا اور ان پر توجہ نہیں دی گئی تو یہ زبانیں ناپید ہوجائیں گی جیسا کہ ماضی میں ایک نایاب زبان سنسکرت جس کے نام سے اب کم لوگ واقفیت رکھتے ہوں گے منظر سے غائب ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تعلیم کا اصل مقصد سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے۔ اگر یہ مادری زبان میں ہو تو بچہ یہ مہارت بخوبی حاصل کرلے گا ، اگر بچے کو ابتدائی لیول پر کسی دوسری زبان میں حاصل کرنے پر لگا دیا جائے تو اس کیلئے مشکل ہو جائے گا کیونکہ وہ پہلے اس زبان کو سمجھے گا بعد میں سبق یاد کرے گا۔ اس کا وقت بھی ضائع ہوگا اور مقصد بھی حاصل نہیں ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ اقدام نہایت قابل ستائش ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو نافذ العمل کیا جائے۔” میں مکمل یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کردینے سے ہمارا تعلیمی معیار مزید بہتر ہوجائے گا۔”

گورنمنٹ مڈل سکول تنی ماموند کے ہیڈ حاجی بخت منیر بتایا کہ یہ فیصلہ نہایت خوش آئند ہے مگر ہمارے پاس فی الحال پانچویں اور آٹھویں جماعت میں یہ کتابیں پڑھائیں جا رہی ہے۔ باقی میں گنجائش نہیں ہے ۔ آئندہ سال سے اس ہر کلاس میں باقاعدگی سے پڑھایا جائے گا جس سے طلبہ کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔

آل پرائیوٹ سکولز ایسوسی ایشن باجوڑ کے صدر نور رحمان نے بتایا کہ ہمیں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مراسلہ موصول ہوگیا ہے اور ہم نے پرائیویٹ سکولز کو ہدایات بھی جاری کردی ہے مگر تعلیمی سال کا بالکل وسط ہونے کے باعث اس کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ جس جس سکول میں جس جس کلاس میں گنجائش بنتی ہے ہم نے شروع کردی ہے مگر ہم توقع کرتے ہیں کہ اگلے تعلیمی سال سے انشاء اللہ تمام کلاسز میں باقاعدگی سے پڑھائیں گے ۔ یہ نہایت خوش آئند اقدامات ہے۔

علاقائی زبانوں کے تحفظ کے حوالے سے سابقہ رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سمیرا شمس نے بتایا کہ محکمہ ثقافت نے اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے نہیں نبھائی جس کے وجہ سے اس حکم نامے پر عملدرآمد میں تاخیر ہوا۔ ان کا مزیدکہنا تھا کہ قانون بنانا صوبائی اسمبلی کا کام ہے اور اس پر عملدرآمد کرنا متعلقہ محکموں کا کام ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹرینز قانون بناتے ہیں اور اس پر عمل درآمدبیوروکریسی کاکام ہے۔ پارلیمنٹرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی نگرانی کریں کیونکہ عوام نے ہمیں اس کے لئے چنا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم عوام کو سہولیات فراہم کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button