بچوں کو نوکر بنانے کے لئے پڑھاتے ہیں کیا؟
ناہید جہانگیر
کیا بچے صرف سکول سے سیکھتے ہیں، والدین کے لیے اپنے بچوں کی تربیت کرنا صرف سکول کی حد تک رہ گیا ہے والدین چاہئے تو اپنوں بچوں کو بہت کچھ سکھا سکتے ہیں ۔ ان کو سکھانے کے کافی زرائع ہیں۔
آج کل سردی کی چھٹیاں زیر بحث ہیں والدین الگ سے پریشان ہیں کہ چھٹیاں ہیں کہ نہیں زیادہ تر والدین بچوں کی چھٹیوں کے حق میں نہیں ہوتے شدید گرمی ہو یا شدید سردی بس والدین کو تو اپنے بچے سکول ہی بھیجنے ہیں۔ والدین کے مطابق گھر میں بچے شرارت کرنے کے ساتھ خراب ہوتے ہیں۔
گھر میں بچے کیسے خراب ہوتے ہیں یہ کس طرح ذہن مان سکتا ہے۔ روبینہ سعید کے 4 بچے ہیں جو سکول جاتے ہیں ان کے مطابق گھر میں بچے کافی تنگ کرتے ہیں۔ سکول میں آدھا دن گزار کر پھر ٹیوشن پر چلے جاتے ہیں تو شرارت نہیں کرتے اور پڑھائی کا حرج بھی نہیں ہوتا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہم بچوں کو نوکر بنانے کے لئے پڑھاتے ہیں ناکہ خود مختیار بنانے کے لئے۔ والدین کو فکر ہوتی ہیں کہ ان کے بچے ڈگری یافتہ ہو اس بات پر دھیان ہی نہیں دیتے کہ ان کے بچے تہذیب یافتہ اورخودمختیار بن سکے۔
محمد عاصم بتاتے ہیں کہ ان کی 4 بچیاں ہیں وہ ان کو صرف پڑھانا چاہتے ہیں کھبی پوزیشن یا زیادہ نمبر لینے کے دباو کے حق میں نہیں ہے کیونکہ دنیا میں کامیابی کا معیار صرف یہی تو نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ تعیلم کے میدان میں اوریج ہو لیکن کسی اور میدان میں انکا کوئی مدمقابل نا ہو ۔ دنیا میں بہت مثالیں موجود ہیں شاید ان کی تعلیمی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی لیکن سائنس، بزنس، ٹیکنالوجی اور سپورٹس میں اپنا نام کمایا ہے۔ اس لئے سردی، گرمی کی چھٹیوں کی توسیع کرنے سے پریشان نا ہو بلکہ بچوں کی شخصیت کو نکھارنے پر کام کریں۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ جب بھی سکول سے چھٹیاں ہوتی ہیں وہ اپنے بچیوں کے ساتھ پہاڑ اور چوٹیوں پر وقت گزارتے ہیں ان کے ساتھ فشنگ کرتے ہیں سوئمنگ اورسائیکلنگ کرتے ہیں کیونکہ یہ تمام سرگرمیاں بچے تعلیمی ادارے سے نہیں بلکہ گھروالوں سے ہی سیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کے استاد نہیں بلکہ دوست بنئیں۔
یاد رہیں کہ ہر سال گرم علاقوں میں محکمہ تعلیم کی جانب سے دسمبرکے آخر میں سکول و کالج کے طالب علموں کو سردیوں کی چھٹیاں دی جاتی ہیں اور تمام تعلیمی ادارے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس سال بھی سردی کی چھٹیاں ہوئیں لیکن فوگ یعنی دھند کی وجہ سے ان چھٹیوں میں ایک ہفتے کی توسیع کی گئ تھی محمکہ تعلیم کی جانب سے 7 جنوری تک مزید تعلیمی ادارے بند رہنے کے احکامات جاری ہوئے تھے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی سائیکالوجسٹ سیماب کہتی ہیں کہ دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کافی توجہ دی جاتی ہے لیکن پاکستان میں والدین صرف تعلیمی اداروں تک محدود رہ گئے ہیں ۔ وہ بتاتی ہیں کہ تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن بچوں کو ہر وقت لکھائی اور پڑھائی کرنے کے لئے پریشرائز کرنا ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔
سیماب نے کہا کہ جب بھی تعلیمی ادارے چاہئے شدید گرمی یا شدید سردی یا کسی بھی وجہ سے بند ہو تو والدین کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں ان کو کس چیز یا کام میں زیادہ شوق ہے یا بچوں کا رحجان کس طرف زیادہ ہے اپنے بچوں کے ساتھ اس پر بحث کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں اس سے بچے کی مثبت سوچ بنیں گی۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ والدین نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داری تعلیمی اداروں ، ٹیوشن سنٹر اور پھر مدرسوں پر ڈال دی ہے جب بھی بچے گھر پر ہوتو والدین کہتے ہیں کہ بچے شرارت کرتے ہیں یا تنگ کرتے ہیں ۔ سائکالوجی کے مطابق ایک نارمل بچہ شرارت کرتا ہے جبکہ ایک ذہنی طور پر بیمار بچہ ہر کسی سے الگ تلگ یا چپ رہتا ہے۔ اگر آپکا بچہ شرارتی ہیں اور ہر کام میں چست ہے تو اسکا مطلب ہے وہ جسمانی و ذہنی طور پر صحت مند ہیں۔والدہ کو چاہئے اگر ان کے بچے 15 سال تک ہیں تو چھٹیوں میں گھر کے کام میں اپنے بچوں کو مشغول رکھیں ۔ کھیل کود پر توجہ دیں ۔
دوسری جانب اسسٹنٹ پروفیسراعزاز جمال کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بچے پڑھتے بھی والدین کی مرضی سے ہیں ، جو گھر کے بڑے چاہتے ہیں وہی بننا ہے وہی پڑھنا ہے ۔ بچے امتحان میں بھی نمبر والدین کی مرضی کے مطابق لیں گے ورنہ ڈانٹ ، مار پیٹ اور طعنے شروع ہوجاتے ہیں اس کا بہت بڑا نقصان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھونا ہے جو شاید دنیا میں والدین کے لئے سب سے بڑا نقصان ہے۔ بچے ٹیسٹ یا امتحان میں فیل یا کم نمبر پر خودکشی کر رہے ہیں۔
ان سب کا حل کیا ہے ڈاکٹر اعزاز بتاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو تعیلم ضرور دلوائیں لیکن ان کی مرضی کے مطابق کہ وہ کیا چاہتے ہیں اگر وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے آپکا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بن کر وہ نام نا بنا سکیں جو وہ کاربار میں بنا سکتا ہے۔ کیونکہ دنیا اچھے اچھے مواقعوں سے بھری پڑی ہے۔
اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کے ساتھ ان کو باہر سیر، پارک یا کسی دوسری تفریحی مقامات پر لے جایا کریں ان سے بچوں کی گرومنگ ہوتی ہیں جو تعلیم کے ساتھ ساتھ بہت ضروری ہے۔
جب بچے جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہوتے ہیں تو خود بخود تعلیمی میدان میں بھی سب سے آگے ہوں گے مثبت سوچ منفی سوچ پر حاوی ہوگا جو بچوں کی مستقبل اور پرسنالٹی میں اہم کردار ادا کرے گا۔