پاکستان میں کتنے افغان مہاجرین آباد ہیں؟
ریحان محمد
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی کُل تعداد کا درست تعین ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان میں پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر کارڈ) رکھنے والے افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 14 لاکھ ہے جبکہ افغان سیٹزن کارڈ رکھنے والے افغانیوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ پچاس ہزار کے قریب ہے۔
آج سے دو سال پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق، رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے علاوہ لگ بھگ چھ لاکھ سے زیادہ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی پاکستان میں قیام پزیر ہیں۔
پاکستان میں موجود اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین کے ترجمان قیصر آفریدی کا کہنا ہے کہ اِن میں سے تقریباً 30 فیصد یا ایک تہائی افغان 54 افغان کیمپوں یا افغان بستیوں میں رہتے ہیں جبکہ 70 فیصد لوگ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی کُل تعداد کا یہ تخمینہ کِس حد تک درست ہے۔
پشاور کے علاقے تاج آباد میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے اور افغان قومی کمیٹی کے سربراہ میاں خیل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین غیر قانونی طریقے سے پاکستان آچکے ہیں جن کی کُل تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
تاہم، میاں خیل کے اندازے کے مطابق، یہ تعداد پچاس لاکھ تک ہو سکتی ہے اور اِس کی ایک اکثریت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں آباد ہے۔ اس سے بھی زیادہ مشکل کام اِن مہاجرین میں اسکول جانے کی عمر والے بچوں کا حساب لگانا ہے۔
شمس صافی پچھلے 25 برسوں سے بین الاقوامی ادارے یونیسف کے ساتھ مختلف منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ یونیسف اور ڈبلیو ایچ او نے کسی بھی آبادی کی کُل تعداد کی بنیاد پر اُس میں سے دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک فارمولہ بنایا ہے جو اِن حالات میں مہاجرین بچوں کی تعداد معلوم کرنے میں کافی مدد کرتا ہے۔
اس فارمولے کے تحت پاکستان میں آباد کُل افغانوں میں سے تقریباً ایک تہائی آبادی دس سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔ اور اگر بچوں کی عمر کی حد پندرہ سال رکھی جائے تو اُن کی کُل تعداد تقریباً پچاس فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
اگر میاں خیل کا اندازہ درست ہے اور پاکستان میں موجود کُل افغان آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے تو شمس صافی کے مطابق اس میں پندرہ سال سے کم عمر کے تقریباً ساڑھے بائیس لاکھ بچے شامل ہیں جِن میں سے لگ بھگ بارہ لاکھ لڑکیاں ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن میں سے کتنی لڑکیاں پاکستان میں باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں؟
اس حوالے سے ٹی این این نے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اب تک نہ تو سرکاری اداروں، نہ نجی اداروں اور نہ ہی کسی محقق کے پاس مکمل معلومات موجود ہے۔ لیکن اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والی افغان مہاجر جینا جو اب اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری ادرے میں کام کرتی ہے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود افغان لڑکیوں میں 20 فیصد سے بھی کم لڑکیاں سیکنڈری سکول تک کی تعلیم حاصل کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد فارسی بولنے والوں کی ہیں۔
پشاور میں موجود پرائیوٹ سکولوں میں بھی زیادہ تر لڑکیاں فارسی بولنے والوں کی ہیں۔ بورڈ بازار میں ڈاکٹر محمد نُور نے پبلک ہیلتھ میں اپنی ماسٹرز ڈگری کے لیے اپنے تھیسس کے لیے ”پاکستان میں سکول جانے والی افغان لڑکیوں کیلئے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل” کا موضوع چُنا۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی 10 فیصد تک لڑکیاں سکول جاتی ہیں باقی سکول نہیں جاتی۔ انہوں نے کہا پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے علیحدہ تعلیمی نظام نہ ہونے کی وجہ سے پشتون قوم کے زیادہ تر مرد اپنے بیٹیوں کو سکول نہیں بھیجتے ہیں۔