عبدالولی یونیورسٹی مردان کا افغان طالبات کے لیے سکالرشپ پر داخلے دینے کا اعلان
عبدالستار
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان نے افغانستان سے تعلق رکھنے والے طالبات کے لئے 50 فل فنڈنگ سکالرشپ (وظائف) سیٹوں پر داخلے کا اعلان کیا ہے۔
اس حوالے سے عبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظہور الحق کے سربراہی میں ایک خصوصی اجلاس ساتواں بورڈ آف مینجمنٹ سٹوڈنٹ ویلفیئر انڈومنٹ فنڈ منعقد ہوا جس میں ڈائریکٹر فنانس ڈاکٹر شائستہ ارشاد، ڈائریکٹر ایڈمیشن ڈاکٹر ماجد، ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس افضال ہمایون اور دیگرافسران موجود تھے. اجلاس میں متفقہ طور پر افغانستان کے طالبات کے لیے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں اس سال فال سمسٹر 2023 میں 50 سکالرشپس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سکالرشپس یونیورسٹی کالج فار وومن اور انڈر گریجویٹ سطح پر دیئے جائیں گے جس میں طالبات سے سمسٹر فیس نہیں لی جائے گی۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظہور الحق نے ٹی این ین کو بتایا کہ یونیورسٹی نے سٹاف کی تنخواہوں سے ایک فیصد کٹوٹی کرکے انڈومنٹ فنڈ بنایا ہے جس کی بدولت ان لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں جنہیں کسی بھی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہو۔
ڈاکٹر ظہور الحق نے بتایا کہ افغان طالبات کو معاشی مشکلات کی وجہ سے شاید دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو اس وجہ سے مذکورہ یونیورسٹی نے انہیں سکالرشپس دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ یونیورسٹی کو انٹرنیشنلائزیشن کے لیے پہلے ہمسایہ ممالک کے طلبہ کو سکالرشپس دے رہے ہیں تاکہ وہ ہمارے ملک اور یونیورسٹی کے ایمبیسڈر بنے۔
ان کے بقول یونیورسٹی نے افغان طالبات کے لیے فری ایجوکیشن اور سکالر شپس کے حصول کا سنہری موقع فراہم کیا ہے جس پر یونیورسٹی تقریباً دو کروڑ روپے سالانہ خرچ کرے گی۔ وائس چانسلر نے کہا کہ افغان طالبات سکالرشپس سے فاٸدہ اٹھانے کے لیے 31 اگست 2023 سے پہلے اپنی درخواستیں جمع کریں اور بغیر کسی معاوضے سے اپنی تعلیمی سفر جاری رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پہلے سے ہر سال 2 ہزار سے زائد سکالر شپس طلباء کو دے رہے ہیں جس میں پاکستانی طلبہ کے ساتھ غیرملکی طلبہ بھی داخلہ لے سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کے باعث متعدد لڑکیاں گھر میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوگئیں ہیں جبکہ ان کے والدین اپنے بچوں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک سے باہر بھیجنے کی کوشش کررہے ہیں۔
.