جنسی ہراسانی کا الزام ثابت ہونے پر ‘کے ایم یو’ کے لیکچرر جبراً مستعفی
ہارون الرشید
خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور کے گریڈ 18 کے ایک لیکچرر کو ہراسانی کا الزام ثابت ہونے پر جبراً مستعفی کر دیا گیا۔
مذکورہ لیکچرر ( جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی) کے خلاف دو ماہ پہلے یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے انتظامیہ کو ہراسانی کی شکایت کی تھی جس پر انکوائری کمیٹی بٹھا دی گئی تھی۔ یونیورسٹی انتطامیہ کے مطابق تحقیقات کے دوران لیکچرر پر نہ صرف ہراسانی کے الزامات ثابت ہوئے بلکہ انہوں نے خود اپنا جرم تسلیم کر لیا ہے جس کے بعد انہیں جبراً مستعفی کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ مستعفی ہونے والے گریڈ 18 کے لیکچرر پر اس سے قبل بھی طالبہ کو ہراساں کرنے کی شکایت موصول ہوئی تھی جس کے بعد انتظامیہ کی طرف سے سخت وارننگ پر وہ یونیورسٹی سے چھٹیوں پر چلے گئے تھے۔
اس حوالے سے خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کا کہنا ہے کہ کے ایم یو کو ایک صاف شفاف اور کرپشن فری ادارہ بنانا ان کا مشن ہے اور اس ضمن میں وہ نہ تو کسی دباؤ کو قبول کریں گے اور نہ کسی مصلحت سے کام لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کے ایم یو میں جنسی ہراسانی، پلیجر ازم اور کرپشن کے لیے زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنا رکھی ہے جس پر سختی سے عملدرآمد ہوتا ہے۔
ان کے بقول یونیورسٹی کی ہراسمنٹ کمیٹی آزادانہ ماحول میں کام کر رہی ہے اور وصول ہونے والی شکایات پر فی الفور کاروائی کی جاتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کا کہنا ہے کہ جنسی ہراسانی کی کسی بھی شکل کی کے ایم یو کے ذیلی اور ملحقہ اداروں میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے جبکہ چند دنوں کے اندر اندر گریڈ 21 کے ایک پروفیسر کو پلیجر ازم ثابت ہونے، گریڈ 18کے ایک لیکچرر کے خلاف جنسی ہراسانی کا الزام پایہ ثبوت کو پہنچنے اور کرپشن کے الزام میں ایک کلاس 4 ملازم کی ملازمت سے برخواستگی کے ایم یو کو ہر لحاظ سے ایک مثالی یونیورسٹی بنانے کا عملی ثبوت ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں یونیورسٹی کے ایک عہدیدار کے موبائل فون سے مبینہ طور پر لڑکیوں کی فحش ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئی تھی جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ یونیورسٹی کے مختلف حکام اور طالبات کی ہیں۔ اسی طرح ایک ہفتہ پہلے سوات یونیورسٹی میں بھی ہراسمنٹ کی شکایات سامنے آنے پر انتظامیہ کی جانب سے جامعہ کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔