یونیورسٹی آف سوات میں طالبات کے ساتھ ہراسانی واقعات میں کتنی صداقت ہے؟
رفیع اللہ خان
یونیورسٹی آف سوات میں طالبات اور فیکلٹی ممبران کے ساتھ ہراسانی کے معاملے پر وائس چانسلر نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا اور نا ہی اب تک انہیں صوبائی محتسب کا لیٹر ملا ہے البتہ انہیں سوشل میڈیا کے زریعے معلوم ہوا ہے کہ صوبائی محتسب نے لیٹر جاری کیا ہے۔
گزشتہ روز سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر صوبائی محتسب کے دفتر سے جاری ایک لیٹر زیر گردش تھی جس میں یونیورسٹی آف سوات کے طالبات اور فیکلٹی ممبرز کی جانب سے (کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 ) کے تحت رجسٹرار امتیاز علی کے خلاف ہراسانی کی شکایت کی گئی تھی۔ جس پر گورنر خیبرپختونخوا نے معاملہ صوبائی محتسب کو انکوائری کے لئے بھیج دیا اور ان سے 31 اگست 2023 تک جامع رپورٹ طلب کر لی۔
صوبائی محتسب نے لیٹر یونیورسٹی آف سوات کے وائس چانسلر اور سٹینڈنگ انکوائری کمیٹی کو بھیجا جو بقول وائس چانسلر حسن شیر کے ان کو ابھی تک نہیں ملا البتہ انہیں سوشل میڈیا کے زریعے معلوم ہوا ہے جس میں فیکلٹی ممبرز اور طالبات کے موبائل نمبرز بھی درج ہے۔
دیئے گئے نمبرز پر جب ٹی این این نے رابطہ کیا تو اس میں ایک ممبر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس حوالے سے صوبائی محتسب کے دفتر سے بھی انہیں کال آئی تھی لہذا ان کا لیٹر کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کسی نے غلطی سے یا جان بوجھ کر میرا نمبر شامل کیا ہے۔ طالبہ نے بتایا کہ کام کی جگہ میں ہراسانی صرف تعلیمی اداروں میں نہیں ہو رہی بلکہ ہر جگہ ہو رہی ہے اس لئے بات کو بڑھا چڑھا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ کو معاملہ انٹرنلی حل کرنا چاہئیے تھا۔ انہوں نے طالبات کے ساتھ ہراسانی کو امتحانی نمبرات کے ساتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ میل ٹیچر امتحان میں نمبروں کا جانسہ دیکر طالبات کو ہراساں کر سکتے ہیں لیکن بعض اوقات فی میل ٹیچرز بھی طالبات کو بلیک میل کرتے ہوئے ان سے نمبرز کاٹتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ فی میل ٹیچر نے ان کے ساتھ کیا ہے اور بلا وجہ ان سے نمبرز کاٹتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر فیکلٹی ممبران سے انٹرنل مارکس کا اختیار تیسری پارٹی کو دیا جائے تو اسطرح کے معاملات میں بہتری آسکتی ہے یعنی طلبہ اور طالبات دونوں کے خدشات دور ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے جب یونیورسٹی آف سوات کے وائس چانسلر حسن شیر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تک انہیں ایسی کوئی آفیشل لیٹر نہیں ملا ہے البتہ انہیں سوشل میڈیا کے زریعے معلوم ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں ایسی کوئی شکایات موصول نہیں ہوئی ہے اگر مل جاتی تو وہ فوری ایکشن لیتا۔حسن شیر نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلانے کی بجائے حقائق کو سامنے لانا چاہئیے۔ انہوں نے بتایا کہ لیٹر میں درج نمبروں کے ساتھ رابطہ کریں کوئی اس کو اون نہیں کرے گا۔ سب نے اس سے لاعملی کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی آف سوات میں دو ہزار کے قریب طالبات پڑھتی ہے ایسی خبروں سے نہ صرف ان کے والدین بلکہ طالبات پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ وائس چانسلر نے بتایا کہ اس قسم کی افواہوں سے نہ صرف یونیورسٹی کا نام بدنام ہو جاتا ہے بلکہ قومی سطح پر امیج خراب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کہ کچھ اقدار اور روایات ہے ان کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اس لئے ان افواہوں پر کان نہیں دھرنے چاہئے انہوں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ سخت ایکشن لیتے۔
اس حوالے سے جب ایک فیکلٹی ممبر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس شکایت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی شکایت کی ہے پتہ نہیں کس نے ہمارے نمبرز دیئے ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ رجسٹرار امتیاز علی ایک با کردار شخصیت ہے اور شکایت میں دئے گئے نمبرز میں بعض طالبات نے تو رجسٹرار کو دیکھا تک نہیں وہ ان کے خلاف شکایت کیسے کریں گے۔
یاد رہے کہ اس سے چند روز قبل جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم جواد خان نے یونیورسٹی آف سوات کے وائس چانسلر کے نام ایک تحریری شکایت کی تھی جس میں انہوں نے طالبات کے ساتھ ہراسانی کا ذکر کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ اس کا سدباب ہونا چائیے۔ درخواست میں انہوں نے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب، طالبات کو بہترین ماحول فراہم کرنے کے ساتھ دیگر تجاویز بھی دی تھی لیکن ان کی درخواست پر کاروائی کرنے کی بجائے ان پر ایف آئی آر درج کرکے گرفتار کر لیا گیا جن کو بعد میں عدالت میں پیش ہونے کے بعد جیل منتقل کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے خلاف یونیورسٹی آف سوات کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ان کہ رہائی کا مطالبہ کیا۔
جب اس حوالے سے وائس چانسلر سے پوچھا گیا کہ اگر صوبائی محتسب کا لیٹر فیک ہے یا ایسی کوئی بات نہیں تو طالب علم جواد کے درخواست پر کیا کمنٹ کریں گے اور ان کو جیل کیوں بھیج دیا گیا جس پر وائس چانسلر حسن شیر نے کہا کہ جواد فیس بک کی ایک فیک آئی ڈی سے یونیورسٹی کے خلاف من گھڑت چیزیں شیئر کر رہے ہیں اس کے علاوہ مجھے دھمکیاں بھی ملی ہے۔ ایک رات نو بجے کے قریب انہوں نے میرے پی اے کو فون کیا اور کہا کہ وائس چانسلر کو گاڑی یونیورسٹی استعمال کے لئے دی گئی ہے رات کو کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ وائس چانسلر نے بتایا کہ انہوں نے نہ صرف مجھے فالو کیا بلکہ میری ویڈیو بھی بنائی حالانکہ مجھے پہلے سے دھمکیاں مل رہی ہے پھر میں نے ڈسٹرکٹ پولیس کو کمپلینٹ کی اور انہوں اس کیس میں ان کو گرفتار کیا ہے۔
طالبات اور فیکلٹی ممبرز کے ساتھ ہراسانی کے معاملے کی تصدیق کے لئے ٹی این این نے متعدد بار رخشندہ ناز کے موبائل نمبر پر واٹس ایپ میسجز بھی کئے اور کال بھی کی اسی طرح صوبائی محتسب کے دفتر کے نمبرز بھی ملائے لیکن کوئی جواب نہ مل سکا اس وجہ سے ان کا موقف سامنے نہیں آسکا۔
یاد رہے کہ چند سال قبل یونیورسٹی آف سوات میں ایک خاتون پروفیسر نے اس وقت کے رجسٹرار محبوب الرحمان کے خلاف کام کے دوران ہراسمنٹ کی کمپلینٹ کی تھی۔ اس حوالے سے حسن شیر نے بتایا کہ اس وقت میں وی سی نہیں تھا البتہ اس وقت جو انکوائری ہوئی تھی اور اب وہ رجسٹرار یونیورسٹی آف سوات میں نہیں ہے۔