تعلیم

خاتون لیکچرار کا رزعی یونیورسٹی پشاور پر سنگین الزامات، یونیورسٹی کا موقف کیا ہے؟

زرعی یونیورسٹی پشاور کی خاتون لیکچرار نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘ غیر قانونی احکامات نہ ماننے پر انہیں گرلز ہاسٹل کی اسسٹنٹ وارڈ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں ماریہ علی نامی نقاب پوش خاتون نے اپنا تعلق  سابقہ فاٹا سے بتایا اور کہا کہ وہ ایگریکلچرل یونیورسٹی پشاور میں لیکچرار ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ یونیورسٹی میں کچھ غیرقانونی سرگرمیاں جاری ہیں، جہاں پی ایچ ڈیز اور اسکالرز کے بجائے کم تعلیم یافتہ افراد کو نوکری دی جاتی ہے۔

ماریہ علی نے کہا کہ وہ یہاں ذہنی تشدد کا شکار ہیں۔

انہوں نے مس لالا رُخ نامی خاتون پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ لالا رخ انہیں غیرقانونی سرگرمیاں انجام دینے کا کہتی تھیں، جب ان سے تحریری طور پر مانا جاتا تو وہ انکار کردیں تھیں۔

ماریہ کے مطابق جب انہوں نے لالا رخ کے غیرقانونی احکامات کو نظر انداز کرنا شروع کیا تو انہیں ذہنی اذیت کا شکار بنا دیا گیا اور انتقاماً انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ماریہ کے مطابق ان کی جگہ ایک لڑکی کو رکھا گیا جس نے پاکستان اسٹڈیز میں بی ایس کیا ہوا ہے جبکہ میں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘مس لالا رخ اپنے ساتھ ہاسٹل میں کچھ ایسے بندوں کو رکھ رہی ہے، جن کا کوئی تعلیم نہیں ہے اور ان بندوں کی نا کوئی ڈاکیومینٹیشن ہے، لیکن وہ جو ہے ڈفرینٹ (مختلف) رومز میں رہتے ہیں، اب کیا ہوتا ہے یہ اللہ جانتا ہے یا مس لالا رخ جانتی ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے جب میں کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوتی ہوں وہاں موجود مرد مجھ پر چیختے چلاتے ہیں اور مجھے پریشرائز کرتے ہیں۔

انوہں نے کور کمانڈر پشاور اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر ایک نظر ڈالیں۔

ادھر زرعی یونیورسٹی پشاور نے گزشتہ روز ایک خاتون کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر اپنا مؤقف جاری کر دیا ہے۔

زرعی یونیورسٹی پشاور میں پروسٹ کے عہدے پر تعینات ڈاکٹر ہارون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’آج جو سوشل میڈیا پر ماریہ علی کی طرف سے ایک ویڈیو کلپ جاری ہوا ہے، اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ کا مؤقف پیش کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو ‘سراسر بے بنیاد اور حقائق کے منافی’ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ماریہ علی زرعی یونیورسٹی پشاور میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں اور یونیورسٹی میں ان کو ویزٹنگ کلاسز بھی دی گئی تھیں۔

یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘ایک سال پہلے ماریہ علی کو یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں عارضی طور پر اسسٹنٹ وارڈن تعینات کیا گیا، جس کے ساتھ انہیں ہاسٹل وارڈن لاج الاٹ کیا گیا۔ اس دوران ان کو انتظامیہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں تھی۔’

بیان میں کہا گیا کہ ماریہ علی خود بھی ہاسٹل واجبات جمع نہیں کرا رہی تھیں اور دوسری طالبات کو ہاسٹل فیس جمع نہ کرانے پر اکساتی تھیں، جس کی وجہ سے اکتوبر 2022 میں انہیں عارضی اسسٹنٹ وارڈن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے تک ماریہ علی وارڈن لاج پر غیر قانونی طور پر قابض رہیں، مزید براں ان کی دو بہنیں جو یونیورسٹی کی طالبات بھی نہیں ہیں، وہ بھی اس وارڈن لاج میں ان کے ساتھ غیر قانونی طور پر رہائش پزیر تھیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ماریہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ اگر مجھے اٹیچ باتھ روم والا کمرہ دیا جائے تو میں وارڈن لاج خالی کر دوں گی۔ انتظامیہ نے انہیں اٹیچ باتھ روم والا کمرہ الاٹ کیا لیکن انہوں نے پھر بھی وارڈن لاج خالی نہیں کیا۔ انتظامیہ کی طرف سے وارڈن لاج خالی کرنے کے بار بار نوٹسز کے باوجود مار یہ علی نے وارڈن لاج خالی نہیں کیا، جس پر انتظامیہ نے مجبور ہو کر آج وارڈن لاج سیل کرنے کے احکامات جاری کئے۔ جس کے رد عمل میں آج ماریہ علی نے ایک غیر اخلاقی ویڈیو جاری کی جو کہ حقائق پرمبنی نہیں ہے۔

یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ماریہ علی کے ذمے ہاسٹل کی تقریباً 50 ہزار روپے واجب الادا ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ساری کارروائی یونیورسٹی کے قواعد وضوابط کے مطابق کی گئی ہے۔ اگر ماریہ علی کو اس ساری کارروائی پر کوئی تحفظات تھے تو یونیورسٹی انتظامیہ کو کارروائی کرنے کی درخواست کرتیں۔

یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ان کی اس غیر اخلاقی اور من گھڑت ویڈیو جاری کرنے سے تمام طلبا و طالبات، والدین اور انتظامیہ کے جذبات مجروح ہوئے، یونیورسٹی کی ساکھ کو دانستہ طور پر نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کی گئی اور ایک باوقار ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button