تعلیم

ضلع مہمند میں سکول چھوڑ کر مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

سعید بادشاہ مہمند 

”اس رات ہماری مایوسی کی انتہا تھی جب ایک سال پہلے ہم میاں بیوی نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے امیدوں کے محور لخت جگر 13سالہ بیٹے شہاب کو سکول سے نکال کرچھوٹی عمر میں ہوٹل کی مزدوری پر لگانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں احساس تھا کہ اس فیصلے ہمارے بیٹے سے ان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا لیکن ہم مجبور تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پوری رات ہم بے چینی اور ضمیر کی ملامت سے نہ سو سکے۔ مگر میں کیا کرتا قلیل مزدوری میں سب سے چھوٹے معذور بیٹے کا علاج کرتا یاسات افراد پر مشتمل کنبے کی کفالت؟ میری مزدوری سے گھر کے اخراجات پوری نہیں ہوپارہے سوچاشائد بیٹے کی مزدوری ملا کر دو وقت کا کھانا کھا سکے”

یہ باتیں قبائیلی ضلع مہمند تحصیل حلیمزئی باروخیل کے 40 سالہ مزدور رحمان اللہ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھرمیں بیوی کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ سب سے چھوٹا بیٹا جسمانی طور پر معذور ہے  جس کے علاج کے پیسے نہ ہونے سے الگ پریشانی اور افسوس ہے جبکہ مزدوری بھی روزانہ نہیں ملتی اگر ملے تو پانچ سو اور ایک ہزار کے درمیان ہوتے ہے جس میں اس کمر توڑ مہنگائی کے دور میں سات افراد پر مشتمل کنبے کو دو وقت کی سوکھی روٹی کھلانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ اس لئے باقی بچوں کو فاقوں سے بچانے کے لئے اپنے پہلے بچے کو سکول سے نکال کر دل کو چھیرنے والے اقدام پر مجبور ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ کم عمر بیٹے کی تین سو روپے روزانہ سے تو انکو وقتی طور ریلیف مل رہا ہے مگر بچے کی صحت اور کام کے دوران تحفظ کی فکر ہر وقت لاحق ہے۔ رحمان اللہ نے بتایا کہ وہ ان پڑھ ہے اس لئے ان کی زندگی مشکل ہے اور وہ معاشی طور پر ہے۔ میری سب سے بڑی خواہش کہ میرے بچے پڑھے لکھے ہو اور مجھے مزدوری کے مواقع میسر ہو تاکہ میں اپنے معذور بچے کا علاج کراسکوں۔

ایک سروے کے مطابق 2017 میں قبائیلی ضلع مہمند میں سکول والے عمر کے بچوں کی کل تعداد 167771تھی جس میں 56ہزار بچے سکول سے باہر تھے یعنی کسی سکول یا مدرسے میں داخل نہیں تھے۔ عموما ایسے بچوں کے خاندان غربت کے باعث اپنے بچوں کے سکول جانے پر توجہ کم کردیتے ہیں۔ ایسے بچے سکول آسانی سے چھوڑ کرچائلڈ لیبر میں جاکر مزدوری شروع کردیتے ہیں۔ والدین کی مجبوری اور چشم پوشی سے یہ بچے مقامی بازاروں کے ورکشاپس،ہوٹلوں، اور مختلف دکانوں میں کام پر لگ جاتے ہیں جو معمولی اجرت کے بدلے ابتر حالت میں سخت رویوں کا سامنا کرکے مشقت کاکام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تحصیل حلیمزئی باروخیل کے 14سالہ عمیر بھی ان میں سے ایک بچہ ہے جو غربت کی وجہ سے چھٹی کلاس میں سکول چھوڑ کر مزدوری پر لگ گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ والدہ کے وفات کے بعد والد اور بھائیوں کا بٹوارہ ہوا تو وہ ایک بھائی کے ساتھ رہتاہے۔ بھائی کے اپنے بھی بیوی بچے ہیں اور ماربل فیکٹری میں لیبر کے طور پر مزدوری کرتے ہیں جس سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوپارہے تھے۔ اس لئے ایک سال قبل تعلیم چھوڑ کر بازاروں میں مزدوری کرنے لگا ہے۔ ہاتھ گاڑی قسطوں پر خرید کرسامان ادھر ادھر پہنچانے سے اوسطا روزانہ تین چار سو روپے کما کر بھائی کا ہاتھ بٹھا رہا ہے۔ عمیر کی اب بھی خواہش اور ارادہ ہے کہ جیسے گھریلو اخراجات تھوڑے کنٹرول ہوجائے تو وہ دوبارہ سکول جانا شروع کرے گا۔

ڈپٹی کمشنر قبائیلی ضلع مہمند ڈاکٹر احتشام الحق نے چائلڈ لیبر کے بارے میں بتایا کہ حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار میں تھوڑا وقت لگے گا مگر گزشتہ 2017 مردم شماری کے مطابق ہمارے جو 56 ہزار سے زائد بچے سکول سے باہررہ گئے ہیں۔ ان کی زیادہ تر تعداد چائلڈلیبر میں چلے گئے جس کی بنیادی وجہ علاقے میں سخت غربت اور بے روزگاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر معاشرے کے لئے ایک ناسور ہے جسے ہم تقویت دے رہے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے والدین اپنی ضروریات کے لیے بچوں سے سکول چھڑوانے کے ساتھ ساتھ ان سے مزدوری بھی کروالیتے ہیں تاکہ گھر کے اخراجات میں یہ کمائی شامل کرلے جو کہ ایک غلط سوچ ہے جس سے ان بچوں کا مستقبل داؤ پر لگایا جاتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر احتشام الحق نے ضلع مہمند کے والدین کو بھی پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ مہمند، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایات پر محکمہ تعلیم ضلع مہمند اور این سی ایچ ڈی کی توسط سے جو داخلہ مہم چلائے جاتے ہیں اس کو کامیاب کرنے کے لئے اپنے چار سال سے اوپر عمر کے تمام بچوں کو سکولوں میں داخل کرائیں۔ چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لئے حکومت بھی سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ خصوصی مہم کے دوران سکول میں داخل ہونے والے بچوں کی مزدوری کے متبادل کے طورپر NCHD کی طرف سے ہر بچے کو ماہانہ 1500 روپے وظیفہ دیا جائیگا۔اگر ان بچوں کے کمائی کے متبادل تلاش کرنے کے لئے عام لوگ بھی مدد کریں  تو تعلیم سے محروم ہونے والی  نئی نسل کو جہالت کے اندھیرے سے بچایا جاسکتا ہے کیونکہ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے  جس میں سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

جماعت ہفتم کے یتیم طالب علم رسول خان نے بتایا کہ اس کا تعلق تحصیل پنڈیالئی دویزئی سے ہے۔ والد غربت کی وجہ سے ضلع چارسدہ کھیتی باڑی کے لئے منتقل ہوئے تھے۔ ان کے بچپن میں والدفوت ہوگیا۔ گھرانے کے واحد کفیل والد کے وفات کے بعد وہاں انکے بے سہارا گھرانے پر فاقوں کی نوبت آئی توانکی والدہ نے انکو اور آٹھ بہنوں کو لاکر ہیڈ کوارٹر غلنئی بازار میں ایک کرائے کے گھر میں رہائش اختیار کرلی۔ ابتدائی طور پرلوگوں کی مدد اور مالی امداد سے کچھ وقت تو گزرا مگر تین سال قبل جب یہاں پر بھی گھر کی معاشی حالت ابتر ہوئی تو میں نے والدہ اور بہنوں کی خاطرچوتھی جماعت میں سکول چھوڑ دیا اور غلنئی بازارمیں مزدوری کرنے لگا۔

انہوں نے کہا کہ ایک دن سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بڑے سرکاری افسر کوہماری خبر ہوئی تو انہوں نے مجھے اور مجھ سے چھوٹی بہن کو اپنے دفتر بلایا،شفقت سے ملے مہمان نوازی کی،دلاسہ دیا اور نقد امداد کے علاوہ ماہانہ بنیاد پر میرے خاندان کے لئے راشن مقرر کیا۔ رسول خان نے بتایا کہ اس افسر نے ان سے وعدہ لیا کہ سکول نہیں چھوڑنا۔ میں نے اگلے روز پھر سے سکول جانا شروع کیا۔ اب گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم ہوں۔ تین سال سے اس افسر کا مقرر کردہ راشن ہر مہینے ملتاہے  جبکہ دیگر ضروریات کے لئے سکول سے چھٹی کے بعد کبھی سبزی والے کے پاس تو کبھی سروس سٹیشنز میں گاڑیاں دھو کرپارٹ ٹائم مزدوری کرتا ہوں۔ میں اب بھی اس وعدے پر قائم ہوں کہ پڑھائی مکمل کرونگا اور بعدمیں سرکاری نوکری حاصل کرونگا۔

ضلع مہمند کے محکمہ تعلیم کے پاس ضلع مہمند میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد کا صحیح اندازہ یا تازہ اعداد و شمارتو نہیں مگر چائلڈ لیبر کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر لیاقت علی کوکافی تشویش ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کے دور افتادہ علاقوں کے سکولوں میں تعینات اساتذہ کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ غربت کی وجہ سے والدین صبح اپنے چھوٹے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے ان سے مزدوری کراتے ہیں جوکہ بڑے پتھر اٹھانے اور توڑنے کی مشقت طلب اور غیر محفوظ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر اور سکول داخلہ کاآپس میں براہ راست تعلق ہے۔علاقے کے جتنے زیادہ بچے سکول میں داخل ہونگے چائلڈ لیبر کی شرح اتنی ہی کم ہوگی۔

ڈی ای او مہمند لیاقت علی نے بتایا کہ انہوں نے ضلع مہمند کے تمام ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلزکے ساتھ میٹنگز کرکے انہیں ٹاسک دیا ہے کہ وہ علاقے میں معاشی طور پر مستحکم لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کو آمادہ کریں کہ معاشرے میں سکول سے باہر اور چائلڈ لیبر میں مصروف بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے غریب والدین کی مالی مدد کیا کریں کیونکہ مثبت یا منفی اثرات سارے معاشرے پر یکساں پڑتے ہیں۔ انہوں والدین پر بھی زور دیا کہ وہ بچوں سے مزدوری کروانے کی بجائے سکولوں میں داخل کرائیں اور وقتی سہولت کے لئے اپنے بچوں کی ساری زندگی برباد نہ کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button