پشاور یونیورسٹی گزشہ ایک ماہ سے بند، طلبہ سڑکوں پر نکل آئے
مصباح الدین اتمانی
پشاور یونیورسٹی میں گزشتہ ایک ماہ سے اساتذہ کی جانب سے کلاسسز بائیکاٹ کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ نے پریس پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
منگل کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شریک طلبہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں سے جامعہ پشاور میں کلاسسز بائیکاٹ کی وجہ سے ہزاروں طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے جبکہ کلاسسز سے بائیکاٹ تعلیمی، معاشرتی اور معاشی دہشتگردی کے مترادف ہے جس کا نشانہ صرف طلبہ بن رہے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ پشاور کے ناظم اسفندیار عزت نے بتایا کہ یہ خطہ پہلے ہی سے دہشتگردی، کورونا وبا اور قدرتی آفات سے بہت متاثر ہوا ہے جس سے ہزاروں طلبہ کے تعلیمی مستقبل پر منفی اثرات پڑے تھے تاہم اب یونیورسٹی میں اساتذہ کی جابب سے کلاسسز سے بائیکاٹ ان طلبہ کا تعیلمی مستقبل مزید متاثر کرسکتا ہے۔
انہوں نے اساتذہ اور طلبہ سمیت تمام مکاتب فکر سے مطالبہ کیا کہ جامعہ پشاور میں تعلیم کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور یونیورسٹی: ”کچھ نہیں پتہ یہ امتحانات ہوں گے بھی یا نہیں”
احتجاج میں شریک آئی ایم سائنسز یونیورسٹی کے طالب علیم حسن امین نے ٹی این این کو بتایا کہ ہم طلبہ کلاسسز سے بائیکاٹ کے خلاف ہے کیونکہ یونیورسٹی آف پشاور میں پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ کا تعلق دور افتادہ علاقوں سے ہیں، یہ طلبہ سالانہ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں جبکہ یہاں ان کی مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔
حسن نے اساتذہ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ جامعہ پشاور میں کلاسسز سے بائیکاٹ کا اعلان ختم کریں جبکہ ان کی جائز مطالبات میں ہم ان کا ساتھ دین گے۔
انہوں نے دھمکی دی کہ اگر جامعہ پشاور کے اساتذہ نے کلاسز کا بائیکاٹ ختم نہیں کیا تو ہم گورنر ہاؤس کے سامنے غیر معینہ مدت تک دھرنا دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
دوسری جانب جامعہ پشاور کے اساتذہ کی جانب سے کلاسز بائیکات اور یونیورسٹی بندش کے خلاف طلبہ نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کر دی۔
اسفندیار ربانی، جنید اقبال، سید انیس باچہ اور محمد حمزہ نے ایڈوکیٹ ملک فاروق کی وساطت سے دائر رٹ پٹیشن میں جامعہ پشاور کے چانسلر، وائس چانسلر ، پیوٹا صدر رجسٹرار کلاس تھری اور کلاس فور کے صدور کو فریق بنایا گیا ہے۔
رٹ پٹیشن میں طلبہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ پیوٹا کی جانب مسلسل کلاسز بائیکاٹ کی وجہ سے طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے جبکہ ملازمین کے بار بار بائیکاٹ کی وجہ سے یونیورسٹی کے علمی تشخص کو شدید نقصان پہنچا ہے اور یونیورسٹی عالمی رینگ میں 7 سے 889 نمبر پر چلی گئی ہے۔
واضح رہے کہ پشاور یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ہاسٹل میں 5 مارچ کو سیکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے سیکیورٹی انچارج ثقلین بنگش جاں بحق ہوئے تھے جس کے اگلے روز جامعہ پشاور کے ٹیچرز ایسوسی ایشن اور غیر تدریسی ملازمین نے کلاسز اور انتظامی عمل سے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا اور ان کا احتجاج تاحال جاری ہے۔
اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کا مطالبہ ہے کہ ثقلین بنگش کے واقعہ کے بعد وائس چانسلر کو برطرف کیا جائے، یونیورسٹی کو مکمل طور پر اسلحہ سے پاک کیا جائے، جامعہ پشاور میں عارضی طور پر تقرریوں کا خاتمہ کیا جائے ، ثقلین بنگش قتل کی جوڈیشل انکوائری کی جائے اور نجی کمپینوں کے سیکیورٹی گارڈز کا نفیساتی معائنہ کیا جائے۔