فرزانہ اسماعیل: ضلع دیر کی پولیو وائرس سے متاثرہ پہلی خاتون ڈاکٹر
ذیشان کاکاخیل
ہمت اور حوصلے کے سامنے انسان کی راہ میں کوئی مشکل آڑے نہیں آ سکتی۔ یہ سچ ثابت کر دکھایا ضلع اپر دیر کی پہلی خاتون ڈاکٹر فرزانہ اسماعیل نے
فرزانہ اسماعیل پولیو سے متاثر ہونے کے باوجود ہمت اور عظمت کی مثال بن گئیں جنہوں نے زراعت کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر لی ہے۔
ایک طرف خاتون جن کا تعلق ایسے علاقے سے ہو جو نہ صرف پسماندہ ہو بلکہ اسے ذاتی دشمنیوں اور بدامنی نے بھی متاثر کیا ہو، وہاں سے ایک خاتون اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے نکلتی ہیں اور اپنا خواب پورا کر دیتی ہیں تو یقیناً ایسا کرنا نہ صرف ان کے لیے بلکہ تمام خواتین کے لیے ایک مثال ہے۔
فرزانہ اسماعیل کا تعلق ضلع اپر دیر کے دوردراز گاؤں نہاگ درہ سے ہے جہاں نہ کوئی ہائی سکول ہے اور نہ ہی لڑکوں کی تعلیم کے لئے کوئی اور سہولت، پورے گاؤں میں ایک ہی پرائمری سکول ہے جہاں جانا صحت مند لڑکی کے لئے مشکل تھا تو ان جیسی پولیو سے متاثرہ بچی کے لیے تو ناممکن ہی تھا۔
فرزانہ کے مطابق ”بچپن سے ہی آفیسر بننا میرا خواب تھا اور یہی خواب میرے راستے میں ہر حائل رکاوٹ کو دور کر دیتا، روزانہ کئی کلومیٹر دور سکول جانا اور آنا یقیناً ایک مشکل کام تھا لیکن جن کے حوصلے بڑے اور منزل واضح ہو تو ان کے لئے ایسا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا، بچپن ہی سے اس زراعت کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔”
فرزانہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے علاقے کی واحد ڈاکٹر ہیں جنہوں نے زراعت کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کے مطابق وہ والدین کی لاپرواہی کے باعث بچپن میں پولیو سے متاثر ہوئیں اور ان کے والدین کو اب افسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے کیوں اپنی بیٹی کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے۔
فرزانہ کے مطابق وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے والد ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور والدہ گھریلو خاتون ہیں جو الف سے بھی لاعلم ہیں، علاقے میں کوئی ہائی سکول نہیں اس لئے ان جیسی کئی لڑکیاں جو خواب تو بڑے بڑے دیکھ رہی ہیں لیکن ان کا خواب پرائمری تعلیم کے بعد دم توڑ کر ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔
ان کے علاقے میں تعلیم کی سہولیات نہیں اس لئے پولیو کی آگاہی تو دور وہاں کے لوگ پولیو کے لفظ سے بھی آشنا نہیں ہیں، فرازنہ کے مطابق پرائمری تعلیم کے بعد وہ مردان آئیں اور یہاں ہاسٹل میں قیام کرتے ہوئے مڈل تک تعلیم یہاں سے حاصل کی، بی ایس سی ہانر اور ایم فل زرعی یونیورسٹی پشاور سے یو ایس ایڈ کے تعاون سے سکالرشپ پر کیا اور گولڈ مڈل حاصل کیا۔
ان کے مطابق اسی بنیاد پر انہیں پی ایچ ڈی میں داخلہ ملا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی ہارٹی کلچر کے شعبے میں زرعی یونیورسٹی سے مکمل کر لی، وہ والدین کی لاعلمی کے باعث پولیو کا شکار بن کر معذور ہوئیں، لیکن اس میں ان کے والدین کا کوئی قصور نہیں کیونکہ جس علاقہ میں زندگی کی بنیادی سہولت تک نہ ہوں، وہاں سکول نہ ہو، وہاں خواتین کا تعلیم نہ ہو تو کیسے کسی کو علم ہو گا کہ پولیو کیا ہے اور اس کے کیا خطرناک اور منفی نتائج آ سکتے ہیں۔
فرزانہ کا کہنا ہے کہ والدین کی سپورٹ کسی بھی فیمیل کے لیے کافی اہم ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی لڑکی کو آگے آنے میں والدین کی سپورٹ ایک مضبوط سہارے سے کم نہیں ہوتی ہے، ”آج میں ڈاکٹر ہوں تو صرف اور صرف والدین کی سپورٹ کی وجہ سے، اگر ان کا سپورٹ نہ ہوتی تو میں پرائمری کے بعد آگے آنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔”
فرزانہ کے مطابق وہ گزشتہ 8 سال سے سیڈ سرٹیفیکیشن آفیسر کی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں، ”ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے لیکن یہاں پر زراعت کے شعبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے، خیبر پختونخوا کے میدانی علاقے ہوں یا دوردراز کے، کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا علم ہی نہیں، آج بھی خیبر پختونخوا میں کسان وہی صدیوں پرانے نظام کے تحت کاشت کاری کر رہے ہیں جس سے نہ صرف کم پیدوار مل رہی ہے بلکہ یہ انتہائی محنت طلب بھی ہے، ہمارے کسانوں کو اب بھی وہی جسمانی مشقت اٹھانا پڑ رہی ہے جو انہیں صدیوں قبل اٹھانا پڑتی تھا۔”
فرزانہ کا خیال ہے کہ انہوں نے اس لیے زراعت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تاکہ کسانوں کو درپیش مشکلات حل ہوں، کسانوں میں جدید ٹیکنالوجی کا شعور اجاگر کیا جائے اور کسانوں کو معیاری بیچ کی فراہمی ہو یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہارٹی کلچر میں پی ایچ ڈی کی اور اب اسی مشن کو مکمل کرنے کے لیے نکل پڑی ہیں۔
ان کے مطابق زمین دار خوشحال بنیں بس یہی ان کی زندگی کی بڑی خواہش ہے، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو پلائیں، وہ درخواست کر رہی ہیں کہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلائیں کیونکہ پولیو کے قطرے نہ پلانا نہ صرف اپنے بچوں اور اپنے ساتھ بلکہ پاکستان کے مستقبل کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔
ان کے مطابق معذور وہ نہیں جن کا ہاتھ، پاؤں یا جسم کا کوئی اور حصہ کام نہ کر رہا ہو بلکہ وہ ہے جن کا ذہن کام نہ کرے، کسی بھی شخص بالخصوص معذوروں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے، انہیں آگے آنا چاہیے اور عام لوگوں کی طرح ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
فرزانہ کے پی ایچ ڈی مکمل ہونے پر ان کے اساتذہ اور ساتھی بھی خوش ہیں، کہتے ہیں ہمیں ان کو دیکھ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا۔
زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہان بخت کے مطابق وہ تمام طلبہ پر فخر کرتے ہیں جو اپنی منزل کے حصول کے لیے محنت کرتے ہیں، ان کے مطابق وہ ایسی بہادر خواتین کو سلام پیش کرتے ہیں۔