اسلامیہ کالج ہراسمنٹ کیس، کسی ایک کو عبرت کانشان بنانا ہوگا تب مسئلہ حل ہوگا
عثمان دانش
خیبرپختونخوا کے تاریخی اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے سماعت کی, عدالت نے وائس چانسلر اسلامیہ کالج کو آئندہ سماعت ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔
دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیئے کہ یونیوسٹی کا یہ حال ہے تو عام پبلک کا کیا ہوگا, یونیورسٹی میں ایسے واقعات ہورہے ہیں لیکن کسی نے کوئی ذمہ داری نہیں لی, جسٹس روح الامین نے یونیورسٹی کے وکیل سے استفسارکیا کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اب تک یونیورسٹی کی جانب سے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ اس پر یونیورسٹی کے وکیل زرتاج انور نے جواب دیا کہ یونیورسٹی نے سٹوڈنٹس کے لئے آگاہی سیشن کا انعقاد کیا۔
اس پر جسٹس روح الامین نے کہا یہ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس ہے خود سمجھتے ہیں ان کو آگاہی سیشن کی ضرورت نہیں ہے,اس واقعے کے بعد بھی طالبات کی شکایات آئی ہے, آپ ایسے اقدامات کریں کہ مسلہ حل ہو جائے, گومل یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کی ویڈیو آئی, اقرار الحسن نے ان کی ویڈیو بنائی تھی, اس چیئرمین کے خود جوان بیٹیاں ہیں اور ایک بہو بھی ہے, جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیئے کہ کسی ایک کو عبرت کانشان بنانا ہوگا تب مسلہ حل ہوگا,آپ یہ بتائی ہراسمنٹ واقعات کی تدارک کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں, پشاور یونیورسٹی سے بھی شکایات آئی ہے۔
یونیورسٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی محتسب فیصلےکے خلاف متعلقہ پروفیسر نے چانسلر(گورنر) کو اپیل کیا, چانسلر نے صوبائی محتسب کا آرڈر معطل کیا,کیس چانسلر کے پاس ہے سنڈیکیٹ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔
اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس روح الامین نے کہا کہ گورنر صاحب کیا کہتے ہیں کہ خیر ہے,جسٹس اشیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ سٹوڈنٹس یونین پر پابندی سے بھی ایسے مسائل پیدا ہوئے ہیں, طلباء تنظیموں نے بھی کچھ غلطیاں کی ہے, اسلامیہ کالج میں جو سٹوڈنٹس ٹاپ کرتا تھا وہ خیبریونین کا صدر ہوتا تھا۔
درخواست گزار وکیل محمد عیسی خان ایڈوکیٹ نے عدالت کوبتایا کہ یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے اجلاس میں فیصلہ ہوا, one loss will be the loss of All یہ صوبائی محتسب کے فیصلے میں بھی لکھا ہے, ٹیچرز ایسوسی ایشن کہتا ہے کہ اگر ایک کو نکالا گیا تو یہ سب کا نقصان ہوگا اس کا مطلب اس پروفیسر کو دوسرے ٹیچر سپورٹ کررہے ہیں۔
اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ یونیورسٹی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کریں جو بھی ایسے واقعات میں ملوث ہے ان کو باہر کریں, ملک میں بہت سے اعلی تعلیم یافتہ لوگ بے روزگار بیٹھے ہیں۔
جسٹس روح الامین نے یونیورسٹی کے وکیل سے استفسار کیا کہ عدالت نے رجسٹرار کو طلب کیا تھا کیوں پیش نہیں ہوئے, اس پر یونیورسٹی کے وکیل نے جواب دیا کہ عدالتی حکم پر آج یونیورسٹی سنڈیکیٹ اجلاس ہے اس وجہ سے رجسٹرار پیش نہیں ہوئے۔ اس پر عدالت نے یونیورسٹی کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ یونیورسٹی نے ایسے واقعات کی تدارک کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں,اس پر یونیورسٹی کے وکیل نے بتایا کہ جو متاثرہ طالبہ ہے اس نے بھی عدالت میں درخواست دائر کیا ہے 29 ستمبر کو سماعت کے لئے مقرر کیا ہے اس کیس کو بھی 29 ستمبر تک ملتوی کریں,اس پر عدالت نے وائس چانسلر اسلامیہ کالج کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کردی۔
یونیورسٹی میں ہراسانی واقعات پر طالبات کا احتجاج
اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں طالبات نے ہراسانی کے واقعات میں اضافے کے خلاف 12 نومبر 2020 کو احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں بڑی تعداد میں طالبات کے ساتھ مرد سٹوڈنٹس نے بھی شرکت کی, اور یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کے خلاف نعرے لگائے, طالبات نے پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر امیر اللہ پر الزام لگایا کہ انہوں نے طالبہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہائیکورٹ میں سماعت کے بعد درخواست گزار کے وکیل عیسی خان سے جب ہم نے سوال کیا کہ یونیورسٹی میں حالات کیسے ہیں کیا حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں یا نہیں۔۔? اس پر عیسی خان ایڈوکیٹ بتایا کہ یونیورسٹی میں حالات ویسے ہی ہے, اس واقعے کے بعد طالبات نے احتجاج کیا لیکن اس پروفیسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی, اس کے بعد بھی کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ سے ایسی شکایت آئی ہے, پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پر الزام ہے لیکن وہ اب بھی اسی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہے, یونیورسٹی اس کو سپورٹ کررہی ہے پروفیسر امیر اللہ کی 2021 میں مدت ختم ہوگئی تھی لیکن اس کو 18 اکتوبر 2021 کو دوبارہ ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین بنایا گیا, عیسی خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جس طالبہ کو ہراساں کیا گیا اس نے اب یونیورسٹی چھوڑ دی ہے متاثرہ طالبہ کا کہنا ہے کہ جب تک یہ پروفیسر ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہونگے وہ یونیورسٹی نہیں آسکتی۔ عیسی خان ایڈوکیٹ نےکہا کہ جب تک ایسے پروفیسر یونیورسٹی میں ہونگے تو پھر حالات ٹھیک نہیں مزید خراب ہونگے۔۔