افغان جنگ: ”ہم مجبور ہیں کہ اب پشتو کی بجائے اردو یا انگریزی کتابیں فروخت کریں”
شاہین آفریدی
افغانستان میں سیاسی اتار چڑھاؤ کے بعد کتابوں کے کاروبار کو بھی شدید نقصان کا سامنا ہے۔
پشاور کے قصہ خانی بازار کے قریب واقع محلہ جنگی خیبر پختونخوا میں کتابوں کی چھپائی کا سب سے بڑا بازار ہے۔ اس بازار نے نہ صرف عام انتخابات بلکہ پڑوسی ملک افغانستان کے صدارتی انتخابات میں بھی بڑا کردار ادا کیا۔
محلہ جنگی میں موجود پرنٹنگ پریس کے مالکان کا کہنا ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے پہلے صدارتی انتخابات کے پوسٹرز اور تشہیری مواد اسی مارکیٹ میں ڈیزائن اور چھاپے گئے تھے، اس کے علاوہ افغانستان میں نجی یا قومی تعلیمی اداروں کی کتابیں اور زیادہ تر اسلامی کتابیں بھی اس بازار میں چھپتی ہیں۔
ایاز اللہ ایک پریس ایجنسی کے مالک ہیں اور گزشتہ 25 سالوں سے اس مارکیٹ میں کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر پابندی کی وجہ سے افغانستان میں پریس کا کاروبار متاثر ہوا ہے، زیادہ تر مشینیں بند ہیں اور مزدور بے روزگار ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ایاز اللہ کا کہنا تھا کہ "افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد زیادہ تر تعلیمی ادارے بند ہونے لگے جبکہ چٹھی کلاس سے اوپر لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی کے بعد کتابوں کی ڈیمانڈ بند ہونے لگی، اس پابندی نے براہ راست کاروبار کو متاثر کیا، مشینیں بند ہونے لگیں اور مزدور بے روزگار ہونے لگے، ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری مشینیں دوبارہ کب شروع ہوں گی۔”
پریس مارکیٹ یونین کے مطابق جنگی محلہ میں 2000 سے زائد پرنٹرز کام کر رہے ہیں۔ ان پرنٹنگ ہاؤسز میں مکمل پشتو پرنٹنگ کی جاتی ہے جو افغانستان کے معیار کے مطابق ہے۔ لیکن گزشتہ سال سے یہ کام متاثر یا مکمل طور پر بند ہے۔
حیات 30 سال سے پرنٹنگ پریس انڈسٹری سے منسلک ہیں اور ان کے ساتھ 12 لوگ کام کر رہے ہیں۔ طالبان حکومت سے پہلے وہ افغانستان میں اپنے ایک کلائنٹ سے اسکول کی تین کتابیں چھاپنے پر کام کر رہے تھے۔
انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ "مارکیٹ اس کاروبار پر زندہ ہے جو ہمیں افغانستان سے ملتا ہے، اگر افغانستان سے آرڈر ملتا ہے تو ہم سب کو کام اور کاروبار ملے گا، اس مارکیٹ میں ڈیزائننگ سے لے کر کمپوزنگ اور پرنٹنگ سے لے کر بائنڈنگ تک تمام کام کیا جاتا ہے جبکہ افغان کلائنٹس اپنے پاکستانی ہم عصروں کے برعکس اچھی ادائیگی بھی کرتے ہیں۔”
پرنٹنگ پریس ایسوسی ایشن کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت انہیں کام نہیں دیتی، ان کا زیادہ تر انحصار افغانستان سے ملنے والے کام پر ہوتا ہے جو اب بند ہو گیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان سے مختلف موضوعات پر لکھی گئیں کتابیں بھی پاکستان لانے پر پابندی ہے۔
اکبر شنواری پشاور میں کتاب کور کے نام سے ایک دکان چلاتے ہیں۔ اس دکان کو افغانستان کا بک سنٹر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی زیادہ تر کتابیں مکمل طور پر افغانستان کی تاریخ، ادب، سیاست اور جغرافیہ سے متعلق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک برس سے ان موضوعات پر کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے محققین، ادیبوں اور طلباء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اکبر شنواری نے بتایا کہ "افغانستان سے شعر، ناول، تاریخ اور ادب سے متعلق کتابوں پر مکمل پابندی ہے، ہمارے گاہک ان کتابوں کیلئے یہاں آتے ہیں، طلباء ان موضوعات پر تحقیق اور مکالے لکھتے ہیں یا ان کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، ہماری دکان ایسی کتابوں کا مرکز ہوا کرتی تھی لیکن ایک سال کے دوران وہ کتابیں آنا بند ہو چکی ہیں جس سے ہمارا کاروبار بھی متاثر ہو چکا ہے۔”
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کتاب فروش کفیل قربان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی تاریخ، سیاست اور جغرافیہ پر لکھی گئیں کتابیں بلوچستان میں زیادہ بکتی ہیں لیکن گزشتہ سال سے افغانستان میں سیاسی تبدیلی کے باعث مقامی مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، اس دوران پشتو کتابوں کے پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی اور اردو کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
کفیل قربان نے بتایا کہ "پشتو زبان کی زیادہ تر کتابوں کی مارکیٹ افغانستان ہوا کرتا تھا، ہم پشتو کی کتابیں کابل، جلال آباد، کندھار اور دوسرے شہروں کو بجھواتے تھے، وہاں کی کتابیں پشاور، کوئٹہ اور کراچی آتی تھیں، افغانستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد کتابوں کا کاروبار براہ راست متاثر ہوا ہے، ہم مجبور ہو گئے ہیں کہ اب پشتو زبان کی کتابوں کی بجائے اردو یا انگریزی کتابیں فروخت کریں۔”
گزشتہ اگست میں طالبان کی حکمرانی نے افغانستان کے پڑھنے کے کلچر اور خاص طور پر کتابوں کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کتابوں کی دکانوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے، اور پبلشرز اور پرنٹنگ ہاؤس گہرے معاشی بحران میں ہیں یا مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔