بلاگزلائف سٹائل

کاش میں اپنے بچپن کو دوبارہ لاسکتی

 

سدرا آیان 

وقت بہت ہی ظالم چیز ہے کسی کے سپنے لے جاتا ہے تو کسی کے اپنے! ایک خوبصورت خاتون تھی جنہیں میں نہیں جانتی تھی ، میں کتنی دیر سے یہ سوچ رہی ہوں کہ انکی خوبصورتی کو کون سے الفاظ دوں، انکی شخصیت میں جو سادگی تھی ایسی جو آپ کو حسن کی گہرائیوں تک لے جائے ، اتنی پر کشش میں نے زندگی میں اس خاتون کے بعد اتنی خوبصورتی کہیں اور نہیں دیکھی ، مجھے انکا چہرہ تو ٹھیک سے یاد نہیں لیکن انکے سیاہ بالوں کی چمک شائد میں زندگی بھر نہ بھولوں ۔۔۔

انکے ساتھ میں نے ایک مرد بھی دیکھا تھا ،دراز قد والا تیس سے پینتیس سال کا مرد ، ایسی بارعب باوقار شخصیت کا مالک، جنکی سنجیدہ مزاجی انکی مردانگی میں اور اضافہ کرتا۔ شائد وہ دونوں شریک حیات تھے اور ساتھ میں چار چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے جو اتنے خوبصورت تھے کہ ہر طرف سے آواز آتی کہ انکے گھر انگریز بچے ہیں۔
وہ خوبصورت خاتون جسے اس وقت میں نہیں جانتی تھی لیکن ہم سب انہیں ممی کہہ کر پکارتے تھے اور جو مرد تھا  اسے پاپا۔

مجھے بس اتنا سا یاد ہے کہ اس گھر میں کئی نام پکارے جاتے تھے جن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ امی اور پاپا تھے، امی پاپا کون تھے ،کیوں تھے یہ مجھے نہیں پتہ تھا بس ایک جگہ تھی جہاں ہم رہتے تھے سب اسے گھر کہتے تھے۔ میں شائد سب کچھ دیکھتی تھی سنتی تھی لیکن کون سی چیز کیوں ہے یہ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی۔

میں اور میرے دوسرے چار بہن بھائی، میں انکے ساتھ لگی رہتی تھی لیکن مجھے نہیں پتہ کہ کیوں ہم سب ساتھ ہوا کرتے تھے میں کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ کھیل کود کی بجائے میں کوئی اور کام کیوں نہیں کرتی تھی؟ بہرحال جو بھی تھا میں ان سب سے بہت مانوس تھی۔ انکے ساتھ بے معنی کاموں میں لگی رہتی ، وقت کے ساتھ ساتھ جن جن چیزوں کی سمجھ آنے لگی وہ چیزیں ہمارے کھیل کود کا حصہ بنتا گیا۔

ناسمجھی کے عرصے میں میں نے گھر کے علاوہ بھی خود کو دو اور جگہوں پر پایا ،سکول اور مدرسہ، ایسا تھا کہ مجھ سے تین بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی انکے ساتھ سکول اور مدرسے بھیجا جاتا تھا  شائد بہت کم لوگ ایسے ہو جنکا ہماری طرح سارا وقت مدرسے اور سکول میں گزر چکا ہوگا اس کے علاوہ باقی جو وقت ہوتا وہ ہماری کھیل کود کا سنہرا وقت ہوتا تھا۔

ایسا تھا کہ صبح فجر کی آذان ہوتے ہی مدرسے میں پہنچنا ہوتا تھا ، پھر سکول کی حاضری سے آدھ گھنٹے پہلے چھٹی ہوتی تھی ، ناشتہ کرکے سکول جاتے سکول سے واپسی پر دو تین گھنٹے بعد پھر سے مدرسہ جاتے ، پھر عشاء تک مدرسے میں رہتے اور اس پورے وقت میں آدھ گھنٹے کی بریک مل جاتی جس میں ہم ایک دوسرے کو مارتے پیٹتے ، ریس لگاتے اور ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے بھاگتے گھر پہنچتے! تب ہم میں سے خوش قسمت وہ ہوتا تھا جسے امی دودھ لینے دوسرے محلے بھجواتی اور وہ خوش قسمت اکثر میں ہی ہوتی، تب جب دودھ لیکر میں اور میرا دوسرا بھائی جو کہ میرا پارٹنر تھا ،واپس آتے تو بڑا بھائی اور بہن راستے میں ملتے جو بریک ختم ہونے پر مدرسہ واپس جاتے ، مغرب کے وقت بجلی بھی چلی جاتی اور یوں اندھیرے کی وجہ سے وہ ٹھیک سے ہمیں دیکھ نہیں پاتے اور ہم خود کو انجان بنا کے انکے پاس سے گزر جاتے اور اگر کبھی انکوہم پر شک گزرتا اور آواز دیتے تو ہم ان سنی کرکے انکے پاس سے ایسے گزر جاتے کہ ہم تو وہ ہے ہی نہیں جسے آپ نے بلایا۔ خیر ایسا بھی ہوتا تھا کہ جس دن وہ ہمیں راستے میں پکڑتے تو دودھ ہاتھ سے لیکر گھر جاکر امی کو دیتے اور ہمیں ہاتھ سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتے (کہ ہم جا رہے ہیں تو تم لوگ کیسے بچو گے) عشاء کے وقت واپسی پر ہماری زندگی شروع ہوجاتی ،ہماری اپنی زندگی! کھیل کود اور کہانیاں سننا اور سنانا ہی تو ہماری اپنی زندگی تھی، سکول اور مدرسے تو ہم اپنے والدین کی خواہش پوری کرنے کے لیے جاتے اپنی زندگی تو چھٹی والے دن ہی جیتے !

جیسے میں نے پہلے بھی بتایا کہ جیسے جیسے ہم زندگی کی ضروریات کو سمجھتے گئے تو اسے اپنے کھیل کود میں بھی شامل کرنے لگے۔ بچپن کے کھیل کود دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جس میں ہم حقیقی زندگی کی نقل اتارتے ہیں جیسے مٹی کے برتن بنانا، گڑیوں کے لیے کپڑے بنانا ، مہمان بن کر ایک دوسرے کے گھر جانا ، استانی بن کر بچوں کو سبق پڑھانا ، جب کہ کھیل کی دوسری قسم وہ ہے جس میں ہم کوئی مخصوص کھیل کھیلتے تھے جیسے مرمر کی گولیوں سے کھیلنا ، کاغز کے ٹکڑوں سے ٹکٹس بنانا ، چھپن چھپائی کھیلنا وغیرہ۔

ہم سارے بہن بھائی انتہائی ذہین اور مختلف قسم کی خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے ، سوائے میرے ایک بھائی کے جو میرا پارٹنر تھا ، خدا کا دیا ہوا سب کچھ تھا پر اسکی کھوپڑی میں عقل نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی ، تب ہی وہ ہمیشہ میرا بھی کام بگاڑتا لیکن جو بھی تھا بندہ صاف نیت کا مالک تھا۔

پھر یوں ہوا کہ مدرسے سے جلد ہی فارغ ہوئے بڑا بھائی اور بہن نے جلد ہی قرآن حفظ کرلی اور پھر انکی وجہ سے ہمیں بھی لمبی چھٹی مل گئی کہ چلو بھئی ویسے بھی ایک دفعہ تو قرآن ختم کر چکے دوسری دفعہ بڑے بھائی سے پڑ لینگے۔

تب ہمیں اپنی زندگی جینے کا زیادہ وقت ملنے لگا، شام کو اندھیرا پھیلنے لگتا تو ہم چھپن چھپائی کھیلنا شروع کر دیتے ، ایک دوسرے کو پکڑ کر خوب پٹائی بھی کرتے ، کبھی ایک بندے کی آنکھوں پر پٹی باندھتے اور وہ اکثر میں ہی ہوتی تھی ، تب یہ لوگ میرے ارد گرد گھومتے لیکن مجھے نہیں بتاتے کہ آگے مت جاؤ دروازہ ہے اور تمھاری ناک ٹوٹنے والی ہے بس تھوڑی دیر بعد اور کیا ہوتا میں ناک پر ہاتھ رکھ کر سُو سُو کرکے بنا آواز کے روتی اور میرے بہن بھائی میری نقل اتار کر ہنستے ، شائد یہ میری اک اچھی عادت تھی جو میں کبھی گلا پھاڑ کر نہیں روئی۔  تب جب کوئی دوسرا بندہ آنکھوں پر پٹی باندھنے کے لیے راضی نہیں ہوتا تھا تو وہ بیٹھ کر کہانیاں سنانے لگتے تب میں آنسو بہانا چھوڑ کر انکی کہانیاں سنتی اور اس دنیا میں قدم رکھتی جس دنیا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ میرا بڑا بھائی مونسچرز کی کہانیاں سناتا تھا ، میری بڑی بہن ہمیشہ جنات اور چڑیلوں کی کہانیاں سناتی رہتی میرا دوسرا بھائی جو میرا بڈی تھا وہ جہازوں اور کشتیوں کے قصے سنا کر خود انجوائے کرتا لیکن میں ایسا محسوس کرتی جیسے پُرزے ٹھیک کروانے والا مستری اپنی کہانی سنا رہا ہے ، میں پریوں ، شہزادیوں اور جادوگرنیوں کی کہانیاں سناتی جبکہ میری چھوٹی بہن کسی الّو کی طرح طرح اپنی چینی سی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حیرانی سے دیکھتی۔

پھر ہماری زندگی میں ٹی وی دیکھنا بھی شامل ہوگیا ہم ہر روز رات آٹھ بجے پی ٹی وی ہوم پر ڈرامہ دیکھتے وہ ہماری زندگی کا ایسا حسین وقت تھا جس میں ممی پاپا بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے،کاغذ کے پھول، جینا تو ہے ، تیرا پیار نہیں بھولے ،یہ ہمارے پسندیدہ ڈرامے تھے۔ ہم سب مل کر ٹی وی دیکھتے اور ہر جمعے کو سہ پہر چار بجے پشتو کا ڈرامہ آتا تھا جو ہم سب بہن بھائیوں کو ایک دوسرے سے زیادہ عزیز ہوتا تھا جبکہ ایک اور ڈرامہ تھا عینک والا جن کے نام سے جو ممی پاپا بھی ہم بچوں کی طری شوق سے دیکھتے تھے اور ہم بہن بھائی پھر ایک دوسرے پر اس ڈرامے کے کردار والے نام رکھتے ، پھر بڑا بھائی اور بڑی بہن بس اتنے سے بڑے ہوگئے کہ وہ کھیل کود کے علاوہ دوسرے کاموں میں وقت بیتانے لگے۔ تب باقی رہ گئے ہم تین چھوٹے بہن بھائی ۔ سردیوں میں رات کا کھانا کھانے کے بعد ہم انگھیٹی کے ارد گرد بیٹھ جاتے ، آگ بجھانے کے بعد ہاتھ میں چھوٹی سی لکڑی لیکر انگاروں سے کھلیتے اور قصے سناتے تھے جبکہ گرمیوں میں صحن میں ایک چارپائی پڑی ہوتی تھی جیسے رات کو بجلی چلی جاتی ہم ایک دوسرے کو دھکے دیتے اس چارپائی تک ایک دوسرے سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرتے اور ہم سب میں سے سب سے تیز سپیڈ میری چھوٹی بہن کی ہوتی تھی کیونکہ وہ کافی بڑی ہوگئی تھی، تب جو آخر میں آتا وہ مار کھاتا اور اسے بھی تھوڑی سی جگہ دی جاتی تھی تب ہم آسمان میں تارے گنتے ، حرکت کرتے ہوئے سیارے تلاش کرتے اور "عمروعیار” کی کہانیاں سناتے تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ جیسے کھیلوں سے فرصت ملی دوسرے کاموں میں مصروف ہوئے تو سمجھ میں آیا کہ زندگی عمر بھر ایسی ہی نہیں چلتی ، عمر بھر یہ سارے رشتے ساتھ نہیں ہونگے اور یہ احساس تب زیادہ ہونے لگا جب  جوان اور خوبصورت جوڑی کے سیاہ بالوں میں سفید بالوں کی چمک دیکھی۔

اب تک تو صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ ممی ہے وہ پاپا ہے کیوں ہیں ؟ کب تک ہیں؟ یہ تو نہیں پتہ تھا  یہ تو تب معلوم ہونے لگا جب ان صحت مند وجود میں بیماریوں نے جگہ بنالی، جب کئی دفعہ ان کو سخت بیماری کے حالات میں کراہتے دیکھا ، تب پتہ چلا کہ وہ کیوں ہیں ؟ کیوں کہ ہماری خوشی ان ہی سے منسلک ہیں ،جب یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ کب تک ہیں تب ہی سے شائد وہ مستیاں ،وہ قہقہے ، وہ قصے کہانیاں وہ سب بھول گئے بڑا بھائی ایم اے انگلش کے بعد اپنی مدد آپ کے تحت اپنی ایک بزنس چلانے لگا اور اسی میں ہی مصروف ہوگیا ، بڑی بہن ایم بی اے کے بعد نوکری کرنے میں مصروف ہوگئی ، میرا پارٹنر بھائی دبئی چلا گیا اور میں صرف فکر کرنے میں لگ گئی۔

آج سالوں بعد ہم نے بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا آج بھی ممی ہی ناشتہ تیار کرتی ہے مگر سالوں ہوئے ایک ساتھ مل کر ہم نے ناشتہ نہیں کیا ، سالوں ہوئے ہم نے مل کر ساتھ میں عید نہیں منائی ، بہت سے سال گزر گئے ہم نے اکٹھی کوئی تصویر نہیں بنائی، ہم کہتے رہتے ہیں سوشل میڈیا اور موبائل نے رشتوں کے بیچ دراڑیں پیدا کیں ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ، سوشل میڈیا اور موبائل ہی تو ہمیں اکٹھا رکھے ہوئے ہیں ، یہ سب صرف وقت کا کھیل ہے، ہر انسان کو ایک محدود وقت دیا گیا ہے جس میں اس نے جینا ہے اور کُھل کر جینا ہے ورنہ وقت جب اپنی معیاد پوری کرے گا تو آپ پر بھی رحم نہیں کریگا ،یہ نہیں دیکھے گا کہ آپ ٹھیک طرح سے جیے بھی جا نہیں ، آپ کس رشتے سے کتنا پیار کرتے ہیں ، وقت پورا ہونے پر بے رحمی سے آپ سے سب کچھ چھین لیتا ہے چاہے وہ آپکا بچپن ہو یا آپکے رشتے ہو۔ بس دل میں ایک کاش کسی تیر کی طرح پیوست ہے کہ کاش دیکھنے اور سننے کہ ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی سمجھ میں آتا کہ یہ سب کیوں ہیں اور کتنا قیمتی ہے۔ کتنا حسین وقت تھا جب میرے والدین جوان تھے اور میرے بہن بھائی میرے ساتھ وقت گزارتے تھے لیکن میں چاہ کر بھی وہ وقت وہ لمحے واپس نہیں لاسکتی۔ جون ایلیاء نے بھی کیا خوب کہا ہے
کہ اگر مجھ سے اگر کہا جائے کہ تمھاری ایک خواہش پوری ہو سکتی ہے بتاؤ وہ کیا ہے ؟ تو میں کہونگا کہ” شعور کی حالت میں دوبارہ پیدا کیا جاوں” تو میری میں بھی یہی خواہش ہے لیکن مجھے یہ بھی پتہ کہ وہ وقت کبھی بھی دوبارہ نہیں آسکتا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button