تعلیم

سیکس ایجوکیشن یا فحش گفتگو، ہم کیا چاہتے ہیں؟

خالدہ نیاز

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں تعلیم کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نمایاں اور تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے عزم کا اعادہ کرنا ہے۔ اس سال کا تھیم نصاب اور تعلیم میں تبدیلی ہے جس کا مقصد احیائے تعلیم کا خیرمقدم اور اس کی تقویت ہے۔

پاکستان میں اگرچہ یکساں نصاب تعلیم رائج ہو چکا ہے اور نصاب میں باقی ماندہ تبیدیلیوں کے حوالے سے آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن جو سب سے اہم پہلو ہیں انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک سیکس ایجوکیشن بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق سیکس ایجوکیشن ہمارے ملک میں اس لئے بھی ایک مسئلہ ہے کہ لوگ اس میں اور فحش گفتگو میں تمیز نہیں کر سکتے۔ سیکس ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرنے کے حوالے سے چند ماہرین سے بات کی گئی ہے۔

سکول لیول پر بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینی چاہیے

پشاور کے ایک سرکاری سکول کی استاد انیلہ گل کا کہنا ہے کہ سکول لیول پر بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینی چاہیے کیونکہ بچوں میں اس حوالے سے کمی ہے اور اگر ایک بچی کو اس حوالے سے معلومات حاصل نہ ہوں اور خدانخواستہ اس کے ساتھ کوئی اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس سے اس کی پوری زندگی تباہ ہو سکتی ہے، ‘آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے لڑکیاں سوشل میڈیا پر ڈرامے اور موویز دیکھتی ہیں اور ان میں ہر طرح کا مواد ہوتا ہے پھر ناسمجھی میں بچیاں اس کو عملی زندگی میں بھی اپلائی کرتی ہیں لیکن اگر ان کو اس حوالے سے آگاہی دی جائے کہ یہ ان کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تعلیمی اداروں میں ان کو اس حوالے سے بتایا جائے۔’ انیلہ گل نے کہا۔

انہوں نے بتایا کہ کم عمری کی وجہ سے بچیوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ کوئی ان کے ساتھ کتنا غلط کر رہا ہے جبکہ پھر ہمارا معاشرہ بھی ایسی لڑکیوں کو قبول نہیں کرتا۔ انیلا گل کہتی ہیں جب بچیوں کو سکول لیول پر پڑھایا جائے کہ اگر کوئی ان کو ٹچ کر رہا ہے تو ان کا رسپانس کیا ہونا چاہیے، کس طرح وہ خود کو اس سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، اس سے نہ صرف وہ خود شعور حاصل کر لیں گی بلکہ گھر کے باقی بچوں کو بھی اس حوالے سے آگاہی دے سکیں گی۔

سرکاری سکول کے چوکیدار کی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی

گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں پشاور کے ایک سرکاری سکول کے چوکیدار نے ساتویں جماعت کی طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا تھا اور اس کے گھر والوں کو تب پتہ چلا جب وہ بچی حاملہ ہو گئی۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک واقعات میں تعلیمی اداروں اور مدرسوں کے اندر بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

2019 میں چارسدہ میں سکول چوکیدار نے دوسری جماعت کی 8 سالہ طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ پولیس ذرائع کے مطابق چارسدہ کے تھانہ خانمائی کی حدود میں جماعت دوئم کی سات سالہ بچی کے ساتھ گورنمنٹ سکول کے چوکیدار نے جنسی زیادتی کی جس کو بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے علاوہ 2018 پشاور میں ایک نجی سکول پرنسپل کو عدالت نے خواتین اور طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی اور بعد ازاں ان کی برہنہ فلموں کے ذریعے ان کو بلیک میل کرنے کی پاداش میں 105 سال قید اور 40 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

اگر ایک طرف انیلہ گل نصاب میں سیکس ایجوکیشن شامل کرنے کے حق میں ہیں تاہم کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کے خلاف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے جنسی واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور بچوں کے ذہنوں پر غلط اثر پڑ سکتا ہے۔

سیکس ایجوکیشن سے بچوں کے ذہنوں پر غلط اثر پڑ سکتا ہے

ماریہ سلیم نامی استانی کا کہنا ہے کہ اگر اس کو سکول لیول پہ شامل نہیں کرنا چاہیے تو کالج لیول پہ اس کو نصاب کا حصہ ضرور بنایا جا سکتا ہے کیونکہ اگر سکول لیول پہ ان کو سیکس کے حوالے سے تعلیم دی جائے گی تو وہ اس میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کریں گے کہ کیا ہے کس طرح ہوتی ہے وغیرہ تو اس کے برے نتائچ سامنے آ سکتے ہیں، ”اگر ان کو سیکس کے حوالے سے بتایا جائے تو آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر کسی کے پاس موبائل ہوتا ہے تو بچے پھر والدین سے چھپ کے اس کو سرچ کریں گے اور ان کے ذہنوں پر اس کا غلط اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ یوٹیوب اور باقی سوشل میڈیا ایپس پر ہر طرح کا مواد موجود ہوتا ہے تو ہمارا جو مقصد ہو گا کہ ان کو آگاہی دی جائے اس کا الٹا اثر پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریپ کیسز اور ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہی اس لیے ہوا ہے کیونکہ اس پر بات بہت زیادہ ہوتی ہے، ایک مسئلے کو جتنا زیادہ ڈسکس کیا جائے اتنا ہی وہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اورکزئی سے تعلق رکھنے والا محمد الیاس بھی سمجھتے ہیں کہ نصاب میں سیکس ایجوکیشن کو شامل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے فائدے کی بجائے بچوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے بچوں کا ذہن تعلیم کی بجائے دوسری طرف چلا جائے گا اور یوں ان کا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا۔

سیکس سے متعلق مواد کو نصاب شامل کرتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی

بچوں کے حقوق پہ کام کرنے والے عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس سے بچوں کے والدین بھی تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے اقدامات کریں، ‘حکومت اور محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ مذہب اور ہماری ثقافتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب میں ایسا مواد شامل کریں جس سے اساتذہ اس قابل ہو سکیں کہ وہ بچوں کو اس حوالے سے شعور دے سکیں، اس مواد کو شامل کرتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی کیونکہ یہ حساس مواد ہو گا اور وہ مذہب یا ہماری ثقافت کے ساتھ تصادم والا نہ ہو۔’ عمران ٹکر نے بتایا۔

عمران ٹکر نے کہا کہ نصاب میں ایسا مواد شامل کرنے سے بچوں میں شعور آئے گا اور اس سے کیسز میں بھی کافی حد تک کمی آ سکیں گی۔

عمران ٹکر نے مزید کہا کہ سیکس ایجوکیشن کا مواد نصاب میں شامل کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنی چاہیے اور ان کو اعتماد میں لے کر ایسا مواد تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سے بچوں کے ذہنوں پر غلط اثرات مرتب نہ ہوں کیونکہ اس کو شامل کرنے کا مقصد ان کو اس حوالے سے آگاہی دینا ہو گی۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ 12 سے زائد بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ساحل کے دو ہزار بیس کے اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے دو ہزار نو سو ساٹھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو کہ دو ہزار انیس کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار بیس میں روزانہ آٹھ بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو اخبارات میں آئے ہیں جبکہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔

مختلف ممالک میں سیکس ایجوکیشن کا احوال

بیلجیئم کی حکومت اس حوالے سے اپنے دیگر یورپی ممالک کی طرح معتدل ہی نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی روشن خیال واقع ہوا ہے، اتنا کہ بعض یورپی ممالک کے نزدیک بیلجیئم کی اپروچ پریشان کن ہے۔ وہ ایسے کہ بیلجیئم کی حکومت نے حال ہی میں 15 سال کی عمر کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لئے ایک سائٹ تیار کی ہے تاہم اب سات سالہ بچوں کے لئے بھی اسے دیکھنے کی سفارش کی جا رہی ہے۔ چین میں سیکس ایجوکیشن لازمی نہیں حالانکہ وہاں اسقاط حمل اور جنسی بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح اس کی متقاضی ہے۔

انڈیا کی صورتحال بھی چین سے مختلف نہیں ہے، جہاں پانچ سے بارہ سال کی عمر کے بچوں کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاہم یہ تعلیم وہاں بھی لازمی نہیں۔ اگرچہ دی گارڈین نے حال ہی میں انکشاف کیا تھا کہ انڈیا میں سیکس ایجوکیشن کا نظام دنیا میں بہترین ہے۔

انڈونیشیا میں سیکس ایجوکیشن کو غیرنصابی سرگرمی سمجھا جاتا ہے، والدین قطعی طور پر لاعلم یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس لئے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جس کی کوشش ہوتی ہے کہ سکولوں میں اساتذہ اس حوالے سے باخبر ہوں، یعنی انڈونیشیا میں بچوں/نوجوانوں کو خبردار تو کیا جاتا ہے لیکن انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ کیوں خطرناک ہے۔ بہرحال انڈونیشیا میں سیکس ایجوکیشن کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

اس کے علاوہ نیدر لینڈ، نیوزی لینڈ اور امریکہ کے علاوہ برطانیہ میں بھی سیکس ایجوکیشن لازمی ہے جبکہ یوگنڈا میں اس پر کوئی بات نہیں کی جاتی، حال ہی میں حکومت نے اس سے متعلق ایک پروپوزل کو مسترد کیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button