بلاگزتعلیم

بیٹی کی تعلیم پر خرچ کرنا تو بے کار ہے اُس نے پرائے گھر جانا ہے

نسرین جبین

ہمارے ہاں آج کے ترقی یافتہ دَور میں بھی لڑکیوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے حصولِ علم سے دُور رکھا جاتا ہے، اگرچہ گزشتہ چند سالوں سے سرکاری اور نجی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجّہ دی جا رہی ہیں، لیکن اب بھی ہزاروں، لاکھوں بچّیاں تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ حالانکہ شاید ہی کوئی ایسی بچّی ہو، جو تعلیم حاصل نہ کرنا چاہتی ہو، پھر یہ بھی کہ ہر سال مُلک کے مختلف امتحانی بورڈز اور یونیورسٹیز میں لڑکیاں لڑکوں کی نسبت بہتر نتائج دیتی ہیں اور خود کو ’’ٹاپرز‘‘ ثابت کرنے میں کافی حد تک کام یاب بھی رہی ہیں۔اس منظر نامے کے باوجود مُلک بھر خصوصاً خیبر پختونخوا میں لڑکیوں میں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔

کئی خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم میں معاشی مسائل اور سماجی روایات آڑے آجاتی ہیں، تو کہیں حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کا مناسب انتظام نہ کرنا بھی اُنھیں تعلیم ،خاص طور پر پرائمری کے بعد کی تعلیم سے محروم کرنے کا سبب ہے۔لڑکیوں کو تعلیمی میدان میں جو چیلنجز درپیش ہیں، اُن میں معاشرتی رویّے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔’’ بیٹا تعلیم یافتہ ہو کر کمائے گا اور ہمارا معاشی سہارا بنے گا، کیوں کہ والدین بیٹے کے ساتھ ہی رہیں گے، جب کہ بیٹی کی تعلیم پر خرچ کرنا تو بے کار ہے، اُس نے پرائے گھر جانا ہے اور پھر کون سا ہم نے اس سے نوکری کروانی ہے‘‘ والدین کا اِس سوچ کا حامل ہونابھی لڑکیوں کی تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ نیز بہت سے کیسز میں بچیّوں کو اسکول نہ بھیجنے میں غربت بھی ایک بڑا عنصر ہے۔

ہمارے یہاں خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں بچّیوں کی تعلیم کا رواج ہی نہیں۔ گرلز اسکولز کا نہ ہونا یا بہت دُور ہونا، خواتین یا لڑکیوں کے لیے’’رول ماڈلز‘‘ کا فقدان کہ جن سے متاثر ہو کر بچّیاں تعلیم حاصل کریں، کم عُمری کی شادیوں کا رحجان وغیرہ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔ اِس حوالے سے شہری علاقوں کے کچھ الگ نوعیت کے مسائل بھی ہیں۔ تنگ و تاریک کمرے، چھوٹی چھوٹی عمارتیں، بجلی کی عدم فراہمی، پینے کا صاف پانی، واش رومز، خاکروب، کینٹین، چار دیواری، سیکیوریٹی، ضروری فرنیچر اور اساتذہ کی کمی وغیرہ بھی اہم مسائل ہیں صوبائی دارالحکومت، پشاور میں450گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکولز ہیں، جن میں ایک لاکھ، 34ہزار154 طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔

ایک قابلِ غور معاملہ یہ ہے کہ پشاور کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ اور مجموعی طور پر صوبے کی لاکھوں طالبات کے لیے پرائمری اسکولز میں کلاس رومز، م صحن اور واش رومز کی صفائی کے لیے سِرے سے عملہ ہی موجود نہیں، جب کہ ان اسکولز میں طالبات کے لیے کینٹین کی بھی کوئی سہولت دست یاب نہیں۔ طالبات اسکولز کی صفائی خود کرتی ہیں اور اس مقصد کے لیے بچیوں کی باقاعدہ ڈیوٹیز لگائی جاتی ہیں۔

بڑی کلاسز کی طالبات اسکول ٹائمنگ سے کچھ وقت پہلے آکر میدان اور کلاس رومز صاف کرتی ہیں۔ جھاڑو لگاتی، فرش دھوتی ہیں، جب کہ یہی طالبات اسکولز میں ماسیوں، خادماؤں اور خاکروبوں کا کردار ادا کرنے کے بعد جمعدار کے فرائض بھی سَرانجام دیتی ہیں کہ اُنھیں طالبات کے واش رومز کے ساتھ اساتذہ کے واش رومز بھی صاف کرنے ہوتے ہیں۔ بریک، یعنی آدھی چھٹی ختم ہوتی ہے، تو ہر کلاس کی بچّیاں اپنے اپنے کلاس روم کی صفائی کرتی ہیں۔ یوں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والی یہ نوعُمر بچّیاں صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ اسکول کا ایک بُرا تصوّر لے کر گھر آتی ہیں۔اس طرح بچّیوں میں مختلف اقسام کے انفیکشنز پیدا ہو جاتے ہیں، جو بعد میں ان کے لیے مسائل اور طرح طرح کی پیچیدگیوں کا سبب بنتے ہیں۔

بعض والدین کا اس حوالے سے کہنا ہے ’’ ہماری بچّیاں اکثر و بیش تر اِس طرح کے کام کروانے کی شکایت کرتی ہیں، بلکہ کئی بار تو وہ اسکول کی صفائی نہ کرنے کے ساتھ، اسکول چھوڑنے کی بھی ضد کرتی ہیں، مگر ہم اُنھیں سمجھا بجھا کر اسکول بھیج دیتے ہیں کہ ہمیں بہرحال اپنی بچیوں کو پڑھانا ہے اور نجی اسکولز کی بھاری فیسیز ادا کرنے کی ہم میں سکت نہیں اساتذہ سے شکایت کریں، تب بھی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔

پشاور میں گورنمنٹ گرلز پرا ئمری اسکول جوگیواڑہ، جی جی پی ایس فدا آباد، زرگرہ آباد اور دیگر سیکڑوں اسکولز میں اِس طرح کے مسائل موجود ہیں۔چند سال پہلے تک پرائمری اسکولز میں کینٹین کی اجازت اور خالہ کی پوسٹ ہوا کرتی تھی، یہ خالائیں اسکولز کے باتھ رومز کی صفائی کے ساتھ کینٹین کا کام بھی کرتی تھیں، کھانے پینے کی اشیاء اور اسٹیشنری وغیرہ آدھی چُھٹی کے وقت فروخت کیا کرتیں لیکن نہ جانے کیوں یہ اسامی 2007 ء میں ختم کر دی گئی صوبے کے تمام پرائمری اسکولز میں صفائی کا عملہ تعیّنات نہیں کیا جاتا۔ صرف اساتذہ اور چوکیدار کی اسامیاں ہیں۔بعض اسکولز میں پہلے سے تعیّنات خالائیں موجود ہیں،تاہم اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پوسٹس بھی ختم کر دی جاتی ہیں مختلف اسکولز کی پرنسپل صاحبان نے اس حوالے سے ذاتی طور پر یا اساتذہ کے تعاون سے اپنی مدد آپ کے تحت خالہ اور جمعدار کا بندوبست کر رکھا ہے اور اُن ہی سے یہ کام لیا جاتا ہے پہلے بھرتی کی گئی بعض خالائیں اب بھی چند اسکولز میں موجود ہیں، تاہم اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں سے بھی یہ پوسٹ ختم کر دی جاتی ہے۔

اب بیش تر اسکولز میں بچّیاں صفائی کا کام کرتی ہیں، جب کہ بعض اسکولز میں اساتذہ نے اپنی مدد آپ کے تحت یعنی اپنی تنخواہوں سے چندہ جمع کر کے پرائیویٹ خاکروب، صفائی کرنے والی یا ایسی خواتین کا بندوبست کرلیا ہے، جو اساتذہ کے لیے چائے بنانے، دفتری کاغذات پرنسپل کے دفتر سے کلاس رومز میں موجود اساتذہ تک کا پہنچانے وغیرہ کا کام کرتی ہیں،مگر ان کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button