بلاگزتعلیم

کیا ہم اور ہمارے بچے ہمیشہ خوف میں ہی جیتے رہیں گے؟

سینا بی بی

میں نے گزشتہ کئی ہفتوں سے خود کو پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈٰیا سے دور کر رکھا ہے۔ کیونکہ میں جب بھی ٹی وی خبریں دیکھتی ہوں یا اخبار یا پھر سوشل میڈیا پر نظر دوڑاتی ہوں تو آئے روز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی خبریں زیرگردش رہتی ہیں۔ اور ان واقعات کو پڑھنے کے بعد شاید ہی کوئی حساس انسان اور خصوصاً خواتین نارمل حالت میں رہ پاتی ہوں۔ میری نظر سے جب بھی ان جیسے دلخراش واقعات سے متعلق سٹوریز گزری ہیں اس کے بعد کئی کئی دنوں تک ٹھیک طرح سے سو نہیں پاتی اور یہاں تک اس معاشرے سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔ میں ہمیشہ یہی سوچتی ہوں کہ آخر ان پھولوں جیسے معصوم بچوں کا قصور کیا ہے اور ان واقعات کا سامنا کرتے ہوئے ان ننھے فرشتوں پر کیا بیتی ہو گی؟

درندگی کے یہ بڑھتے ہوئے واقعات ہر انسان کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا میرے ملک کے بچے اتنے بے مول ہیں کہ ان کو اس طرح مسل کر پھینک دیا جائے؟ اکثر بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے لیکن اگر خوش قسمتی سے کوئی بچہ زندہ بچ بھی جائے تو وہ واپس اپنی نارمل زندگی میں آ نہیں پاتا۔ وہ بچہ جس پہ اس طرح کی آفت گزری ہو وہ کس طرح اپنی پڑھائی پر توجہ دے پاتا ہو گا؟ پتہ نہیں وہ کس طرح  سکون سے سو پاتا ہو گا؟ اور اس معاشرے میں کس طرح دوبارہ گھل مل سکے گا؟ ایسے کئی واقعات بھی بعید از قیاس نہیں جہاں پر درندگی کے شکار بچوں نے خودکشی کی کوشش کی ہو گی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہی بچے پڑے ہو کر اسی قسم کی جنسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیں۔

معاشرے میں جنسی زیادتی کا نشانے بننے والے نونہالوں کے اکثر والدین بے خبر ہی رہتے ہیں کیونکہ بعض بچوں کو ڈرا دھمکا کر چپ کروایا جاتا ہے اور کچھ بچوں کے والدین کے ساتھ اس حد تک دوستی ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس قسم کی باتیں والدین کو بتا سکیں اور اسی وجہ سے ان کے بچے تمام عمر کے لیے جسمانی اور نفسیاتی مسئلوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کوئی آج کی بات نہیں، پہلے یہ واقعات منظر عام پر شاز و نادر ہی آتے تھے لیکن میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا کی وجہ سے جہاں معاشرے کی باقی برایئوں کی نشاندہی ہوئی وہیں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بھی رپورٹ ہونا شروع ہو گئے۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ساحل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 2020 کے دوران پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 2960 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ساحل کی طرف سے مہیا کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال کے دوران 1510 بچیاں جبکہ 1450 بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے، 50 بچوں اور بچیوں کو مدرسہ جات میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس طرح بچوں کو ہسپتال ،ہوٹل، کار، کلینک، کالج، فیکٹری، جیل، پولیس سٹیشن، شادی ہال، یہاں تک کہ قبرستان اور دیگر کئی ایسی جگہوں پر بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ان واقعات کو اہمیت دینے اور اس کو میڈیا کی سطح پر لانے میں سب سے اہم کردار قصور کی سات سالہ زینب کے واقعے کا ہے جس کو جنوری 2018 میں زیادتی کے بعد قتل کر کے کچرے میں پھینک دیا گیا تھا۔ تمام میڈیا نے اس واقعہ کو بہت اچھے سے رپورٹ کیا، جس سے ایک طرف زینب کے قاتل کو گرفتار کر لیا گیا تو دوسری طرف لوگوں میں بچوں سے جنسی زیادتی جیسے واقعات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں مدد ملی۔

میں سوچتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں یہ ذہنی مریض آخر پیدا کیسے ہو گئے؟ کوئی اتنا کیسے گر سکتا ہے کہ معصوم بچوں کے ساتھ اس حد تک ظلم کرے؟ یہ بیمار ذہن کون پیدا کر رہا ہے؟ اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ کیا یہ ذہن سارا دن فحش فلمیں دیکھنے کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں یا کھلے عام منشیات فروشی سے، یا آیا اس کی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت ہے یا معاشرے میں بڑھتا ہوا اضطراب جس سے بندہ اس حد تک چلا جائے کہ ننھے فرشتوں کو جہنم سے گزرنا پڑے، اور یا پھر اس ذہنی بیماری کی وجہ کچھ اور ہے؟

وجوہات جو بھی ہوں لیکن آیا ہم بحیثیت معاشرہ اس کی روک تھام کے لیے  یا حل کے لیے بھی کچھ کر رہے ہیں یا نہیں؟ میں نے اکثر ماؤں کو دیکھا یے کہ وہ اپنے بچوں کو اسی خوف سے باہر نہیں جانے دیتیں اور خاص طور پر لڑکیوں کو، وہ اپنی بچیوں کو عمر سے بہت پہلے بڑے بڑے دوپٹے پہنا دیتی ہیں کہ زمانہ خراب ہے، چلو ہمیں تھوڑا بہت شعور آ گیا ہے کہ اب ہم بچیوں کو قاری صاحب، ڈرائیور، مالی اور کزن کے قریب نہیں جانے دیتے لیکن بچیوں کو ان کے باپ، ماموں اور چچا سے کیسے بچایا جائے؟ کیا بچوں کو ڈرا کر گھر میں بٹھا کر اور بچیوں کو بڑے دوپٹے پہنا کر ہم وقت سے پہلے ہی ان کی معصومیت ختم نہیں کر رہے؟ کیا ہم ایسا کر کے ان ذہنی مریضوں کو اور طاقتور نہیں بنا رہے؟ کیا ہمیں اپنے بچوں کو ان کا مقابلہ کرنا نہیں سکھانا چاہیے، کیا ہم اپنے بچوں کو ذینی طور پر کبھی مضبوط بنا سکیں گے یا ہم اور ہمارے بچے ہمیشہ خوف میں ہی جیتے رہیں گے؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button