کیا بنوں میں اغوا برائے تاوان معمول بنتا جا رہا ہے؟

احسان اللہ خٹک
ضلع بنوں میں اغوائیگی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں گزشتہ تقریباً دو ماہ کے دوران مختلف علاقوں سے چھ افراد اغوا کئے گئے۔ ان واقعات پر قبائلی اقوام اور مشران کی جانب سے شدید احتجاجی مظاہرے اور تحریکی سرگرمیاں جاری رہیں۔
ضلعی پولیس کی جانب سے مسلسل کارروائیاں جاری رہیں، جن کے تحت مختلف علاقوں میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کئے گئے، جس کے نتیجے میں پانچ مغویان کو بازیاب کرایا گیا۔ تاہم دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود علاقہ میریان سے ڈیوٹی پر جانے والے سرکاری اسکول کے استاد فرمان علی شاہ تاحال بازیاب نہ ہو سکے۔ قومی مشران ان کی بازیابی کے لیے متحرک ہیں۔
ذرائع کے مطابق اغواکاروں نے استاد کی رہائی کے بدلے تاوان کا مطالبہ کیا، جسے ان کے خاندان نے مسترد کر دیا ہے۔ اس مطالبے کے بعد استاد کی رہائی کی کوششیں مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔
ادھر گزشتہ روز شام کے وقت تھانہ منڈان کی حدود سے اغوا کیے جانے والے ریسکیو 1122 اہلکار ابرار اور ان کے بھائی فہیم خان کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ پہلا واقعہ ہے جب ریسکیو 1122 کے کسی اہلکار کو اغوا کیا گیا ہو۔
ریسکیو 1122 ایمرجنسی آفیسر بخت اللہ وزیر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، "پوری رات ریسکیو 1122 کا عملہ اور افسران اپنے ساتھیوں کے لیے پریشان رہے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بے انتہا تعاون کیا۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سلیم عباس کلاچی پوری رات ہمارے ساتھ رابطے میں رہے اور ہر ممکن یقین دہانی کرواتے رہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ مغوی اہلکار ابرار اور ان کے بھائی فہیم کو بازیاب کرا کے تھانہ منڈان پہنچا دیا گیا ہے اور انہیں فوری طبی معائنے کے لیے اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔
بخت اللہ وزیر کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ انہیں کیوں اغوا کیا گیا تھا، کیا یہ کوئی غلط فہمی تھی یا تاوان کی غرض سے یہ کارروائی کی گئی؟ اصل حقائق اغوا شدگان کے بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد سامنے آئیں گے۔
جبکہ ڈی پی او بنوں سلیم عباس کلاچی کا کہنا ہے کہ فی الوقت تفتیش کی جا رہی ہے کہ اغوا کرنے والے افراد کا تعلق کس گروپ سے ہے تاہم اس حوالے سے کوئی واضح بیان نہیں دیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ گزشتہ شام ابرار اور فہیم کی گمشدگی کی ابتدائی رپورٹ ان کے اہل خانہ کی جانب سے تھانہ منڈان میں درج کرائی گئی تھی۔