جرائمعوام کی آواز

چارسدہ: سرکاری ہسپتال میں خاتون کی نومولود بچی کو اغوا کرنے کی کوشش

سرکاری اسپتال سے نومولود بچی کے اغوا کی کوشش ناکام، عوام نے ملزمہ کو پکڑ لیا

رفاقت اللہ رزڑوال

چارسدہ کے علاقے رجڑ میں قائم ویمن اینڈ چلڈرن سرکاری ہسپتال میں  خاتون نے جمعرات کو نومولود بچی کو اغوا کرنے کی کوشش کی، تاہم عوام نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ملزمہ کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہسپتال میں ایک خاتون نے نوزائیدہ بچی کو چپکے سے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن ہسپتال میں موجود لوگوں نے اس کی مشکوک حرکات کو دیکھ کر فوراً کارروائی کی اور اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ عوام نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ملزمہ کے اس عمل کو غیر انسانی اور غیر اسلامی قرار دیا۔

تھانہ سٹی پولیس کے ایس ایچ او وارث خان کے مطابق، گرفتار خاتون کی شناخت خدیجہ کے نام سے ہوئی ہے جس کا تعلق تحصیل تنگی سے ہے، جس کے خلاف دفعہ 363 (بچے کی اغوا) اور دفعہ 311 (اغوا کی کوشش) کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کی مزید تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ملزمہ کسی منظم گروہ کا حصہ تھی یا یہ انفرادی کارروائی تھی۔

عوام کا کہنا ہے کہ اگر ہسپتال انتظامیہ اور سیکیورٹی اہلکار مستعد ہوتے تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ شہریوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اسپتال انتظامیہ اور سیکیورٹی عملہ بچوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکا ہے؟۔ انہوں نے بتایا کہ "یہ عمل نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سخت سزائیں دی جانی چاہئیں تاکہ دوبارہ کوئی ایسی جرات نہ کرے۔”

یہ پہلا موقع نہیں کہ چارسدہ میں نومولود بچوں کے اغوا کا واقعہ پیش آیا ہو۔ گزشتہ ایک سال میں دو مختلف مواقع پر بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، مگر انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے ایسے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں۔

7 اکتوبر 2022 کو ایک نجی اسپتال سے ایک خاتون نے نومولود بچی کو اغوا کر لیا تھا، جسے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے اغواکار میاں بیوی کو گرفتار کر کے بچی کو بازیاب کرایا گیا تھا۔ اسی طرح 26 مارچ 2024 کو بھی ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال سے ایک نومولود بچے کو اغوا کیا گیا تھا، جس میں دو خاتون سمیت دو مرد ملوث تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ملزمان نے بچی کو 30 ہزار روپے میں فروخت کیا تھا۔

تاہم ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عادل نے صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ روزانہ ہسپتال میں 50 سے 60 بچوں کی پیدائش ہوتی ہے، اور ہر ماں کے ساتھ کم از کم دو سے تین افراد موجود ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے رش غیر معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے حفاظتی تدابیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بچے کی پیدائش کے بعد لیبر روم میں اس کے ہاتھ پر ایک شناختی ٹیگ باندھا جاتا ہے، جس پر والدین کے نام اور شناختی کارڈ نمبر درج ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بچے کو ماں کے حوالے کر کے وارڈ میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں سے اس کی حفاظت کی ذمہ داری والدین اور رشتہ داروں پر آ جاتی ہے۔ اغوا کے واقعے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، "یہ واقعہ والدین کی عدم آگاہی کی وجہ سے پیش آیا، مگر خوش قسمتی سے بچہ بحفاظت بازیاب ہو گیا۔”

ہسپتال میں عملے کی کمی اور بڑھتے رش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ہسپتال میں کل 198 افراد پر مشتمل عملہ ہے، جبکہ ضرورت 240 افراد کی ہے، جس میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس اور چوکیدار شامل ہیں۔ حکومت نے 102 نئی اسامیوں پر بھرتی کا اعلان کیا ہے، جو کسی حد تک مددگار ثابت ہوگی۔

سیکیورٹی کے حوالے سے ڈاکٹر عادل نے نشاندہی کی کہ "ہسپتال میں 24 گھنٹے کی سیکیورٹی کے لیے صرف تین پولیس اہلکار فراہم کیے گئے ہیں، اور بیک وقت صرف ایک اہلکار ڈیوٹی پر ہوتا ہے، جس کے باعث پورے ہسپتال کی سیکیورٹی کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔”

انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ "اپنے بچوں کو نرس کے علاوہ کسی اجنبی کے حوالے نہ کریں، اور ہسپتال کے وارڈ میں صرف ایک خاتون رشتہ دار کو اپنے ساتھ رکھیں تاکہ نظم و ضبط اور سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔”

مسلسل بچوں کے اغوا کی وارداتوں نے والدین میں شدید خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے یہ واقعات بار بار پیش آ رہے ہیں، لیکن اب تک کوئی سخت اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

شہریوں نے حکومت اور پولیس حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ہسپتالوں کی سیکیورٹی کو مؤثر بنایا جائے، سی سی ٹی وی کیمرے فعال کیے جائیں اور ایسے جرائم میں ملوث ملزمان کو سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی ماں کی گود نہ اجڑے۔

Show More

Rifaqat ullah Razarwal

رفاقت اللہ رزڑوال چارسدہ کے رہائشی اور ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیات اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر ویب سائٹ اور ریڈیو کیلئے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ 2014 سے عملی صحافت میں خدمات سرانجام دینے والے رفاقت اللہ رزڑوال نے 2018 میں پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button