سوشل میڈیا کا جنون، تحقیر آمیز کمنٹس تین افراد کی جان لے گئے
رفاقت اللہ رزڑوال
پشاور کے علاقہ رشید گڑھی میں ٹک ٹاک ویڈیو کمنٹس کے تنازعے پر دو فریقین کے درمیان فائرنگ سے تین افراد جانبحق جبکہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔ تھانہ یکہ توت پولیس نے واقعے میں ملوث 14 ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔
فریق اول امین خان نے تھانہ یکہ توت پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ رشید گڑھی میں جمعے کے دن ڈھائی بجے کے قریب پیش آٰیا، علی عرف شینا نامی لڑکے کی ٹک ٹاک ویڈیو پر انہوں نے ایمو جی کی صورت میں تبصرہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اُن کا تبصرہ علی کو ناگوار گزرا جس پر وہ اپنے ساتھیوں سمیت شدید غصے کی حالت میں اُن کے گھر پہنچ کر اُن پر اور انکے بھائی حمید پر فائرنگ شروع کر دی تو حمید نے بھی جوابی فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ان کی جان بال بال بچ گئی مگرحمید زخمی ہو گیا۔
امین خان نے پولیس کو مزید بتایا کہ علی اور انکے ساتھیوں کی جوابی فائرنگ سے راہ گیر زخمی ہوئے تاہم ان کا بھائی ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گیا۔
تفتیشی پولیس کو موصول ہونے والی ٹک ٹاک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند نوجوان جنہوں نے غیرمہذب اور بدمعاشی کے ڈائیلاگ پر ڈبڈ ویڈیو اپلوڈ کی ہے جن کے کمنٹس باکس میں تبصرہ نگاروں نے تبصرے کے طور پر بیشتر ایموجیز شئیر کئے تھے۔
تاہم واقعے کے متعلق ایس پی سٹی ظفر احمد خان نے بتایا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ایمو جیز تبصرے پر لڑائی ہوئی ہے جس میں ایک فریق سے دو جبکہ دوسرے سے 1 نوجوان جانبحق ہوئے ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے ایک فریق نے ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس پر دوسرے فریق نے طنزیہ ایموجی کے ساتھ کمنٹ کیا جس کے بعد دونوں فریقوں میں بحث وتکرار ہوگئی۔
پولیس کے مطابق بحث و تکرار کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور دونوں گروہوں نے ایک دوسرے پر گولیاں چلا دی. تھانہ یکہ توت پولیس نے ٹی این این کو بتایا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے اور ان کے درمیان پہلے سے کوئی ذاتی دشمنی بھی نہیں تھی مگر ویڈٰیو کمنٹس کے ذریعے وہ ایک دوسرے پر غصہ تھے۔
پشاور پولیس کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت اس سال قتل کے واقعات میں نسبتاً اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران 231 جبکہ روان سال کے صرف 6 ماہ کے دوران 219 افراد قتل ہوئے ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سماجی جرائم کی شرح بڑھنے کی اصل وجہ اداروں کی جرائم کے خلاف کاروائی میں عدم دلچسی، عدم برداشت، خراب معاشی حالات، بے روزگاری اور کم علمی ہے۔
سینئر صحافی سید شاہ رضا نے ٹی این این کو بتایا کہ سوشل میڈیا معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے مگر نوجوانوں میں علم کی کمی کی وجہ سے اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ ادارے فوراً منفی مواد شئر کرنے والے افراد کے خلاف کاروائی کریں تاکہ معاشرہ ایسے سانحات سے بچ سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسکے لئے متعلقہ ادارہ ایف آئی اے موجود ہے جو یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے مگر اُن کی غیرسنجیدگی سے معاشرہ اخلاقی اور جانی نقصانات کے دہانے پر کھڑا ہو چکا ہے، دوسرا یہ کہ عوام میں بھی برداشت کا مادہ کم نظر آ رہا ہے وہ ایک دوسرے کی تنقید کو ذاتی مسئلہ سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ اسے ذاتی مسئلہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ سب کا حق ہے کہ اخلاق کے دائرے میں ایک دوسرے پر تنقید کریں۔
سید شاہ رضا کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا معلومات کی رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہے مگر ضروری ہے کہ متعلقہ ادارے عوام میں اُن قوانین کے بارے آگاہی پیدا کریں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے پر قابو کرنے کیلئے ہو۔
تاہم یکہ توت پولیس کا دعویٰ ہے کہ واقعے میں 14 ملزمان اسلحہ سمیت گرفتار کر لئے گئے اور مزید تفتیش کیلئے سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد لی جا رہی ہے۔