سانحہ مدین، پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے دو ہزار افراد کو نامزد کرلیا، تفتیش شروع
رفیع اللہ خان
سانحہ مدین، پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے دو ہزار افراد کو نامزد کرکے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے، تاہم آخری اطلاعات تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔
سوات کے مرکزی شہر سے 51 کلو میٹر دور سیاحتی علاقے وادی مدین میں جمعرات کی شام قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی پر لوگوں کے مشتعل ہجوم نے سیالکوٹ کے رہائشی سلیمان کو پولیس سے چھڑاو کر قتل کردیا اور بعد میں نذر آتش کرکے لاش کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔
واقعہ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ سوشل میڈیا صارفین نے کئی اہم سولات بھی اٹھائے ہیں اور واقعہ پر سیر حاصل تبصرے بھی کئے ہیں۔
ٹی این این نے بعض ایسے سولات کے جوابات معلوم کرنے کی کوشش کی ہے جو عام لوگ جاننا چاہتے ہیں۔
ٹی این این نے ایس پی اپر سوات عطاءاللہ سے پوچھا کہ لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ فلاں بندے نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے؟
جس پر انہوں نے کہا کہ مبینہ ملزم سلیمان 18 جون سے مدین کے ایک ہوٹل میں رہ رہا تھا گزشتہ روز پولیس کو اطلاع ملی کہ دو تین بندوں نے اسے قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہوئے دیکھا ہے، پولیس نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرکے تھانہ مدین منتقل کیا گیا جہاں لوگوں کا ہجوم بھی ان کے پیچے آگئی تھی اور یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہجوم نے تھانے کو آگ لگائی، پتھراو کیا اور مبینہ ملزم کو چھڑا کر لے گئے جس کے بعد ان کو قتل کرکے نذر آتش کر دیا گیا۔
ایس پی اپر سوات نے بتایا کہ ہجوم نے تھانے میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے تھانے میں کھڑی سات سے آٹھ سرکاری گاڑیوں سمیت ایک ڈی ایس پی کی ذاتی گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچایا ۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی فائرنگ اور پتھراو سے گیارہ افراد معمولی زخمی ہوئے تھے۔
پولیس کے کردار کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ پولیس نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے ملزم کو تھانہ منتقل کیا لیکن لوگوں کا ہجوم بہت زیادہ تھا جسے پولیس کنٹرول نہیں کرسکتی تھی۔
سیاحت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مدین اور کالام میں بڑی تعداد میں سیاح اس وقت بھی موجود ہے جو بالکل محفوظ ہے اور امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات بدقسمتی سے رونماء ہوتے ہیں تاہم اب حالات نارمل ہے پولیس تفتیش کے بعد ہی مزید حقائق سامنے آئینگے۔
اس حوالے سے ٹی این این نے مذہبی سکالر مفتی وسیم کے سامنے کچھ سوالات رکھ دئےہیں جن کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسلام میں بغیر تحقیق کے کسی کے خلاف بات کرنے سے بھی منع کیا ہے تحقیق انتہائی ضروری اورلازمی ہے۔
مفتی وسیم نے بتایا کہ تحقیق کے بعد ہی اسلامی تعلیمات کے مطابق قرآن پاک کی بے حرمتی یا اصحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو عمر بھر قید کی سزا ہے بلکہ اس میں تعزیر بھی ہے یعنی قاضی کے پاس یہ اختیار ہوتا ہےکہ اسےقتل کی سزا سنائیں۔
اسی طرح اگر محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم یا دیگر انبیاء کرام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو قتل کا حکم ہے لیکن یہ سزائیں حکومت وقت دے گی عوام کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ یہ کام خود کریں لیکن بدقسمتی سے اس وقت ملک میں قانون مفلوج ہے کسی کو وقت پر سزائیں نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اس ردعمل پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
مفتی وسیم نے بتایا کہ اگر عوام اس طرح ردعمل ظاہر نہیں کرتے تو ایسے واقعات کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا اور ایسے کیسز روزانہ رونماء ہو جاتے، انہوں نے بتایا کہ تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے تاہم مسلمان حکمران اپنے فیصلوں میں خود مختیار ہوتے اور تحقیق کے بعد اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سزائیں دے دیتے لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے ان کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب، پیغمبروں کی شان میں گستاخی کرنے والے چار سو کیسز چل رہے ہیں کسی کو آج تک سزا نہیں ہوئی ہے جب تک حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تب تک ایسے ردعمل بھی آتے رہینگے ۔
انہوں نے بتایا کہ شرعی طور پر لوگوں کو اختیار حاصل نہیں ہے کہ توہین مذہب کے مرتک شخص کو قتل کریں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں قانون مفلوج ہے اور یہی حکومت لوگوں کو ایسے اقدام پر مجبور کرتی ہے۔
اس معاملے پر بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا کینا ہے کہ خیبر پختون خوا حکومت نے سوات مدین واقعے کا نوٹس لیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔مزید انہوں نے کہا کہ تمام محرکات سامنے لاکر قانون کے مطابق کاروائی کی جائیگی اور ہم سوات انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ اور عوام سے پرامن رہنے کی اپیل ہے۔