جرائمخیبر پختونخواسٹیزن جرنلزم

دو سال بعد چارسدہ پولیس اہلکار کی گمشدگی کا معمہ حل

رفاقت اللہ رزڑوال

چارسدہ پولیس کادعویٰ ہے کہ دو سال قبل چارسدہ کے رہائشی لاپتہ پولیس کانسٹیبل کا سراغ لگا کر تین ملزمان گرفتار کرلئے گئے ہیں، گرفتار ملزمان نے کانسٹیبل ناصر خان کو قتل کرکے دریا میں پھینک دیا تھا۔

تاہم مقتول کے ورثا لاش نہ ملنے کا زمہ دار چارسدہ پولیس کو قرار دے رہی ہے اور کہتے ہیں کہ اگر پولیس اُس وقت ان کے غائب ہونے کا مقدمہ درج کرتی تو لاش غائب نہ ہوتی۔

ہفتے کے روز چارسدہ پولیس کے انوسٹی گیشن ونگ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس احسان شاہ نے تھانہ سٹی میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پشاور پولیس کا سپاہی ناصر علی 6 ستمبر2022 کو کانسٹیبل ناصر گھر سے نکل کر واپس نہیں آیا۔ جس کے اغوا کے خلاف انکے بھائی نوروز خان نے انفورسڈ ڈس اپئرنس کمیشن آف انکوائری کو درخواست دی تھی۔ کمیشن نے تھانہ سٹی پولیس کو مقدمہ رجسٹرڈ کرنے کا حکم صادر کیا تھا جس پر تھانہ سٹی نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔

ایس پی انوسٹیگیشن احسان شاہ نے ہفتے کے روز واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ دو سال قبل شہزاد نامی شخص پولیس کے پاس آئے، انہوں نے شکایت درج کرتے ہوئے بتایا کہ علاقہ بختیار آباد میں ان پر راہزنوں نے حملہ کرکے موٹرسائکل اور موبائیل فونز لینے کی کوشش کی جس پر ہم نے فائرنگ کرکے ان کو بھگا دیا تھا۔ اس وقت پولیس نے ابتدائی رپورٹ درج کر دی۔

انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں قریبی رہائشی گُل افضل نامی ایک بوڑھے شخص سے تفتیش کا عمل شروع کیا۔ جس نے پولیس کو بتایا کہ دو سال قبل یہاں پر رات کے اندھیرے میں ایک نامعلوم فرد کا قتل ہوا تھا، ان کی معلومات پر جائے وقوعہ سے مقتول کی پرانی چپل بھی ملی ہے۔

پولیس کے مطابق بوڑھے شخص نے ہمیں بتایا کہ چند افراد اس کی لاش کو ٹرالی میں رکھ کر کہیں لے گئے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش کا دائرہ بڑھاتے ہوئے ان افراد کو شامل تفتیش کر لیا جس نے اپنے اوپر راہزنوں کے حملے کی رپورٹ درج کروائی تھی۔

ایس پی احسان شاہ نے کہا "تفتیش کے دوران ملزمان جواد، رویز، ساجد، بصیر اور عبدالحق نے اعتراف کرکے بتایا کہ انہوں نے ناصر علی کو قتل کرکے لاش دریائے سوات میں پھینکی تھی جبکہ ملزمان سے پستول، کلاشنکوف اور جس ٹرالی میں لاش کو دریا کی طرف لے گئے تھے برآمد ہوئے”۔

سوال کیا گیا کہ ملزمان نے ناصر علی کو کیوں قتل کیا، اس پر ایس پی احسان نے بتایا کہ وجہ تاحال معلوم نہیں ہوسکی مگر ان کا اندازہ ہے کہ وہ پولیس اہلکار تھے اسلئے قتل کیا گیا۔

ایس پی احسان شاہ نے بتایا کہ واقعے میں کُل پانچ ملزمان ملوث تھے مگر دو ملزمان میں سے ایک کا تعلق پاکستان آرمی سے ہے جس کے خلاف متعلقہ محکمے کو کیس ارسال کیا جائے گا،جبکہ دوسرا ملزم سعودی عرب چلا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف پہلے ہی سے درج مقدمے میں دفعہ 365 (اغوائیگی) کے ساتھ 302 (قتل) ، 200 اور 201 (لاش کو چھپانے اور پولیس کو اطلاع نہ دینے) اور 7 اے ٹی اے (دہشتگردی) کے دفعات شامل کر لئے جائیں گے۔

تاہم میڈیا کے نمائندوں نے ملزمان سے وجہ عناد معلوم کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نے ملزمان کو میڈیا کے ساتھ بات کرنے سے روک کر فوری طور پر اپنے ساتھ لے گئے۔

مگر دوسری جانب مقتول کے ورثاء پولیس کی تفتیش اور کردار پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شامل تفتیش بوڑھے شخص کو دو سال بعد کیوں اور کیسے شامل تفتیش کیا گیا، پولیس کی غفلت اور غیرسنجیدگی کی وجہ سے ناصر خان کی لاش غائب ہوئی ہے۔

مقتول کے بھائی نوروز خان نے ٹی این این کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ میرے بھائی کے غائب ہونے کے دن شہزاد نامی لڑکے نے سنیچنگ کا مقدمہ درج کیا اور کہا کہ ان سے تین نقاب پوش نامعلوم ملزمان نے موبائل فون، موٹرسائکل اور 13 ہزار روپے نقدی چھین لئے، سامنے آنے پر ان کی پہچان کر سکتا ہوں، تو جب مدعی مقدمہ ملزمان کو پہچان نہ سکے تو میرے بھائی کو کیسے مقدمے میں براہ راست شامل کیا گیا؟

نوروز کا کہنا ہے کہ پولیس نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا جہاں سے ایک موبائیل فون ملا جسے ان کے بھائی کے نام سے منسوب کیا اور اس موبائیل کے ذریعے بلال نامی لڑکے کو پکڑا مگر پکڑے گئے لڑکے سے بھی مزید تفتیش نہیں کی گئی۔

انہوں نے بتایا "آج اگر ڈیڈ باڈی ریکور نہیں ہو رہی تو یہ پولیس کی کوتاہیوں کی وجہ سے ہے، کیا اب محکمہ پولیس ان اہلکاروں کے خلاف کوئی کاروائی کرے گا؟ کیونکہ نہ تو پولیس نے بروقت جائے وقوعہ کا دورہ کیا ہے اور نہ وہاں پر واقعے کی عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کئے ہیں”۔

نوروز نے مزید بتایا کہ اُس وقت انہوں نے تھانہ پڑانگ پولیس کے پاس بھی اپنے بھائی کی غائب ہونے کی شکایت لے گئے تھے مگر انہوں نے بھی مقدمہ درج نہیں کیا، اگر بروقت مقدمہ درج ہوتا تو آج ان کے بھائی کی لاش غائب نہ ہوتی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button