جرائم

چارسدہ میں خواجہ سرا گُل پانڑہ فائرنگ سے شدید زخمی

رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ میں فائرنگ سے ایک خواجہ سرا شدید زخمی ہوگئے جسے چارسدہ ہسپتال سے ابتدائی طبی امداد کے بعد تشویشناک حالت میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
واقعہ اتوار اور پیر کی درمیانی صبح ساڑھے تین بجے چارسدہ کے مردان روڈ پر واقع شہیر پلازہ میں تیسری منزل پر مقیم درجنوں خواجہ سراؤں کی رہائشی کمروں میں پیش آیا جس میں ملزم تیمور نے خواجہ سرا شہزاد عرف گل پانڑہ کو فائرنگ کرکے زخمی کر دیا۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہپستال چارسدہ کے کیجولٹی پولیس کے اہلکار محمد باسط نے ٹی این این کو بتایا کہ گزشتہ رات مجروح خواجہ سرا کو ابتدائی طبی امداد کیلئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہپستال منتقل کیا گیا جہاں پر انہوں نے پولیس کو وجہ بتائے بغیر بتایا کہ ان کو ملزم تیمور ولد سرور سکنہ کلاڈھیر چارسدہ نے فائرنگ کرکے زخمی کر دیا۔
پولیس کے مطابق مجروح خواجہ سرا کا تعلق پشاور نوی کلی سے ہے جس کو سینے، پیٹ اور کمر پر تین گولیاں لگی ہے جسے ابتدائی طبی امداد کیلئے لیڈی ریڈنگ ہپستال منتقل کر دیا مگر تاحال پولیس ملزم کی گرفتاری میں کامیاب نہیں ہوسکی،

تھانہ سٹی پولیس نے ملزم کے خلاف دفعہ 324 (زخمی) کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔ جائے وقوعہ مردان روڈ کی جانب چارسدہ فاروق اعظم چوک سے تقریباً 500 میٹر کی دوری پر واقعہ ہے۔ جہاں پر بیٹ پولیس اہلکار 24 گھنٹے ڈیوٹی دے رہے ہیں اور اکثر خواجہ سراؤں کے پلازے کے سامنے پولیس کھڑی نظر آتی ہے مگر واقعے کے دوران پولیس موجود نہیں تھے۔
پلازے میں موجود 65 سالہ چوکیدار معاذالدین نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ پلازے کے سامنے بیٹھے تھے کہ اچانک فائرنگ کی آواز آئی تو وہ فوراً اٹھے جب دیکھا تو تیسری منزل میں مقیم خواجہ سرا کی گولیاں ماری گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ رات کی تاریکی کی وجہ سے وہ مذکورہ ملزم کو نہیں پہچانے مگر اتنا جانتے ہیں کہ یہ شخص خواجہ سراؤں کے ساتھ کئی گھنٹوں سے بیٹھ کر گپ شپ کر رہے تھے۔ واردات کے بعد ملزم پلازے کے عقبی راستے سے نکل کر فرار ہوگئے۔
خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کے صدر خواجہ سرا فرزانہ ریاض کہتی ہے کہ صوبہ بھر میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے مگر پولیس اور ریاستی ادارے انہیں تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔
فرزانہ ریاض نے ٹی این این کو بتایا کہ خیبرپختونخوا میں سال 2015 سے 2024 تک 124 کے قریب خواجہ سراؤں کو قتل جبکہ 3 ہزار سے زائد کو زخمی کر دیا گیا ہے ‘مگر آج تک کسی بھی خواجہ سرا کے قتل میں ملوث ملزم کو سزا نہیں ملی ہے’۔
انہوں نے اس سوال کہ خواجہ سرا عدالتوں میں اپنے مقدمات کی پیروی کیوں نہیں کرتے تو جواب دیتے ہوئے بتایا ‘ہم کیسے پیروی کرے ہمیں تو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد بھی دھمکیاں مل رہی ہیں ۔اور اس حال میں اگر عدالت میں مقدمات کی پیروی کرے تو بھی ہمیں مقدمہ چلنے نہیں دیا جاتا بلکہ دھمکیاں اور حملے کئے جاتے ہیں’۔

فرزانہ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کے تحفظ میں حکومت اور پولیس مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ‘بس ہمارے پاس یہ امید باقی رہی ہے کہ وزیراعلیٰ خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے واقعات کا نوٹس لیں اور صرف دو الفاظ میں واقعے کی مذمت اور اس کے خلاف ایکشن لینے کا کہہ دیں تو شائد کچھ بہتری آجائیں’۔

سماجی حلقوں میں خواجہ سراؤں پر یہی الزام لگ رہا ہے کہ فحاشی پھیلانے اور نوجوانوں کے اخلاقیات برباد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مگر گزشتہ ماہ پشاور پریس کلب میں فرزانہ ریاض کی سربراہی میں خواجہ سراؤں تنظمیوں نے خیبرپختونخوا کے آئی جی سے اقبال پلازے کو خالی کرنے کا مطالبہ اور اس میں مقیم خواجہ سراؤں سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔
تاہم فرزانہ ریاض کہتی ہے کہ اس بیان کے بعد خواجہ سراؤں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنے والے افراد نے انہیں قتل اور ریپ کی دھمکیاں دینا شروع کئے ہیں جس کی وجہ سے اب خود کو بھی غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے۔

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق خیبرپختونخوا میں 10 ہزار سے زائد خواجہ سرا مقیم ہیں مگر خواجہ سراؤں کی تنظیموں کے مطابق اس صوبے میں 50 ہزار سے زائد خواجہ سرا زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button