جرائم

پشاور میں رات 10 بجے کے بعد نقل و حرکت پر پابندی ہو گی: پولیس

رفاقت اللہ رزڑوال

پشاور پولیس نے تھانہ داؤدزئی کے ملحقہ عوام کے لیے جاری ہدایت نامے میں کہا ہے کہ علاقہ ڈاگئ ملا خان، شاہ عالم اور دیگر ملحقہ علاقوں میں کوئی بھی شخص رات 10 بجے کے بعد بلا ضرورت گھر سے نہیں نکلے گا۔ تاہم علاقہ عمائدین اور قانونی ماہرین اس حکمنامے کو خلاف آئین و قانون تصور کرکے کہتے ہیں کہ ایسے احکامات انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

گزشتہ ہفتے 9 ستمبر کو تھانہ داؤدزئی کے ایس ایچ او آفس سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کی طرف سے عوام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ‘آج کے بعد رات دس بجے کے بعد کوئی بھی شخص بلا ضرورت نہیں گھومے پھرے گا۔’

جاری کردہ ہدایت نامے میں مزید کہا گیا ہے ‘آئس ایک لعنت ہے اور پوری خاندان کی تباہی ہے لہذا کوئی بھی شخص خواہ کسی بھی فرقے سے ہو اس کے خلاف پوری کارروائی ہوگی، اگر کوئی شخص اس کے پیچھے آیا تو ان کے خلاف بھی کاروائی ہوگی۔’ ہدایت نامے کے آخر میں لکھا ہے کہ رات کو قبرستان، دریا کے کنارے یا کھیتوں میں بلا عذر پائے تو ان کے خلاف بھی کاروائی ہوگی۔

ایس ایچ او تھانہ داؤدزئی صدام ریاض نے ٹی این این کو جاری کردہ حکمنامے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حکمنامے میں جاری ہدایات علاقہ مشران کی مطالبے پر جاری کئے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ متعلقہ علاقوں میں آئس جیسے نشے کی لعنت میں اضافے کی وجہ سے چند روز قبل چند نشہ کرنے والوں نے دو افراد کو قتل کیا تھا جس پر علاقہ مشران نے مطالبہ کیا کہ چند دن کیلئے ہمارے علاقے میں بلا ضرورت اور بے وقت گھومنے پھرنے پر پابندی لگا دی جائے۔

صدام ریاض کہتے ہیں کہ یہ ایک عارضی اقدام ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ علاقے میں غیرمقامی، مشکوک اور جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں پر قابو پائیں، ہمارا طریقہ یہ ہوگا کہ اگر رات دس بجے کے بعد انہی علاقوں میں بندے پکڑے جائیں تو ان کو علاقہ مشران کی تصدیق پر چھوڑ دیا جائے گا۔

جاری کردہ حکمنامے پر علاقہ عمائدین نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی نقل و حرکت پر پابندی کی بجائے پولیس اپنی زمہ داریاں پوری کرکے تحفظ فراہم کریں۔

تھانہ داؤد زئی کے حدود میں واقع عیسیٰ خیل کی رہائشی ڈاکٹر انوار اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ ایک غیر ضروری حکمنامہ ہے، ہمارے علاقے کے اکثر لوگ غریب اور مزدور کار ہیں، وہ اکثر رات کو گھر لوٹتے ہیں اور کچھ لوگ صبح اذان سے پہلے نکلتے ہیں تو اگر اس دوران ان کو تصدیق کے نام پر روکا جائے تو ان کا نہ صرف وقت ضائع ہوگا بلکہ وہ ذہنی کوفت کا شکار بھی ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ نشہ آوار مواد کی سپلائی اور اس لت میں مبتلا افراد کے بارے میں متعلقہ پولیس کو علم ہوتا ہے مگر پولیس ان جہگوں پر چھاپے مارنے سے کتراتے ہیں۔ ان کے بقول پولیس کو چاہئے کہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے ایک ایسی میکانزم ترتیب دیں جس سے عوام مطمئن اور جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا تنگ ہوسکیں۔

جاری کردہ حکمنامے کو قانونی ماہرین غیر آئینی اور غیر قانونی سمجھتے ہیں، قانونی ماہرین کے مطابق ایسے حکمنامے آئین کے آرٹیکل 15 کے خلاف ورزی ہے جس کا پولیس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن نورعالم خان ایڈووکیٹ نے ٹی این این کو بتایا کہ آئین کے شق 15 کے مطابق آزادی سے گھومنا پھرنا پر شخص کا بنیادی حق ہے جبکہ یہاں پر ایسے حکمنامے جاری کرنا مارشل لاء کی مترادف ہے۔

نورعالم خان کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات غیرآئینی اور غیرجمہوری حکومتوں میں اُٹھائے جاتے ہیں جب ملک پر مارشل لاء نافذ ہو تو اس وقت شہریوں کی بنیادی حقوق غصب کئے جاتے ہیں مگر اب چونکہ جہمہوری حکومت ہے تو ایسے دور میں ایسے اقدامات اُٹھانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

اسی طرح یہ شق 16 (اکھٹا ہونے)، شق 17 ( تنظیم سازی)، شق 18 (کاروبار کرنے) اور شق 19 (آزادی سے اظہار خیال) کے بھی خلاف ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ جرائم کی روک تھام کیلئے پولیس اپنی کارروائی کسی بھی وقت کرسکتی ہے، اس میں کوئی ٹائم کی حد موجود نہیں ہوتی، اب پولیس اگر شہریوں کی نقل و حرکت کو آئس کی روک تھام سے جڑ رہے تو کیا رات کے 10 بجے سے پہلے آئس کی خریدو فروخت یا جرائم کی اجازت ہو گی؟ تو میری نظر میں یہ حکمنامہ ایک غیرقانونی اور غیر آئینی ہے۔

تھانہ داؤدزئی کے ملحقہ علاقوں کے عوام نے آئی جی خیبرپختونخوا سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کی جانب سے اس غیرقانونی اقدام کا نوٹس لیں اور علاقے میں امن و امان کی بحالی کیلئے ٹھوس پلان ترتیب دی جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button