چارسدہ میں مبینہ طور پر قتل ہونے والی خاتون کی بوری بند لاش برآمد
رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ کے تحصیل شبقدر میں مبینہ طور پر قتل ہونے والی خاتون کی بوری بند لاش برآمد ہوئی ہے۔
تھانہ سرو شبقدر پولیس کے مطابق مقتولہ کے بھائی سیراج نے رپورٹ درج کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی 14 سالہ بہن سمیرا کی دو ہفتے قبل ناصر نامی جوان سے شادی ہوئی تھی، شادی کی 4 روز بعد ان کی بہن کو قتل کر دیا گیا اور ان کی لاش کو بوری میں بند کرکے دریائے کابل میں پھینک دیا گیا۔
تھانہ سرو کے ایس ایچ آصف خان نے ٹی این این کو بتایا کہ تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ سمیرا اور ناصر نے پسند کی شادی کی تھی جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ واقعہ سے قبل مقتولہ کے شوہر ناصر نے تھانے میں اپنی بیوی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی جس کے بعد پولیس نے لڑکی کی تلاش شروع کر دی تھی۔
ایس ایچ او کے مطابق لاش ملنے کے بعد مقتولہ کے بھائی سیراج نے ناصر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے مگر تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گی۔
خیال رہے کہ چارسدہ میں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر 8 خواتین کو قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے خواتین کی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں منفی معاشرتی رویوں اور نظام انصاف میں سقم کی وجہ سے خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے سربراہ صائمہ منیر نے ٹی این این کو خواتین پر ہونے والے تشدد کی وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے مقتولہ کی شادی کم عمری میں کی گئی ہے جو ایک قانونی جرم ہے کیونکہ قانون کے مطابق شادی کے لیے مقررہ عمر کم از کم 16 برس تک ہونی چاہئے، دوسرا یہ ہے کہ جب بچی کی شادی ہو جائے تو انہیں اپنے خلاف ہونے والے مظالم کے دوران خاموش رکھا جاتا ہے۔
صائمہ منیر نے کہا کہ جب کسی خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا اسے قتل کیا جائے تو انہیں یا ان کے ورثاء کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے بقول پہلے تو ان کی ایک انتہائی کمزور ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور پھر جب ایف آئی آر درج ہوجائے تو اکثر متاثرہ خاندان کے پاس وکیل کے پیسے نہیں ہوتے اس لئے ان تمام صورتحال میں ملزم بری ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
طاہر کلیم بھی انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں خواتین کے ساتھ پیدا ہوتے ہی ظلم کرنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اکثر گھرانے بچی کی پیدائش پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ ان منفی رویوں کی وجہ اکثر بچیوں کو تعلیم اور حق وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان مسائل کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر قتل، تشدد اور خواتین کے خلاف جرائم کے قوانین پر عمل درآمد کیا جائے، اگر کسی خاتون کو قتل کیا جائے تو اس میں سزائے موت تک کے سزائیں بھی دی جاسکتی ہے تاہم اس کے لئے ضروری ہوگا کہ اپنے بچیوں کے شکایات کو سنا جائے اور اس کیلئے کوئی مناسب حل نکالا جائے۔