جرائم

ایبٹ آباد میں سسرال کی جانب سے 4 ماہ تک جانوروں کے باڑے میں باندھی گئی خاتون بازیاب

 

آفتاب مہمند 

خیبر پختونخوا کے ضلع ابیٹ آباد میں ثوبیہ نامی خاتون کو مویشیوں کے ساتھ ایک باڑے میں رکھنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ یہ واقعہ ابیٹ آباد کے ایک گاوں دیسال، درمڑھیا میں پیش آیا ہے۔

ابیٹ آباد کے مقامی صحافی عالمزیب ملک نے ٹی این این کو بتایا کہ واقعے کا پتہ کچھ یوں چلا جب ثوبیہ بی بی کے اہل خانہ کے لوگ دیسال، درمڑھیا گاوں میں ایک شادی پر بطور مہمان آئے تھے تو دیسال کے کچھ باسیوں نے ثوبیہ کے والد اور بھائی کو بتایا کہ آپکو یہ علم بھی نہیں کہ ثوبیہ کو اپنے ہی شوہر حمید، دیوروں سعید اور شافی اور اپنی ساس یاسمین نے بکریوں کے ایک باڑے میں رکھا ہوا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ساس یاسمین ان پر تشدد بھی کرتی رہتی ہے۔

ایسے میں والد اور ثوبیہ کے بھائی محمد اشفاق دیسال کے چند رہائشیوں کو ساتھ لیکر حمید کے گھر اچانک داخل ہوئے اور موقع ہی پر تھانہ بگنوتر پولیس کو بھی مطلع کرکے بلایا گیا۔ حمید کے گھر جب سب داخل ہوئے تو انہوں نے خود ثوبیہ بی بی کو بکریوں کے ایک باڑے میں باندھے ہوئے پایا۔

عالمزیب کہتے ہیں کہ ابیٹ آباد میں انہوں نے پہلے اس طرح کا افسوسناک واقعہ نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ثوبیہ کے جسم پر زخم و تشدد کے نشانات بھی تھے اور وہ بہت بری حالت میں تھی۔ ایسے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کافی عرصہ سے حمید اور اہل خانہ انکو کھانا بھی غیر معیاری فراہم کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ثوبیہ کا شوہر حمید خود راوالپنڈی، اسلام آباد میں ہوٹل میں مزدوری کرتا رہتا ہے اسی طرح ثوبیہ کا والد خود ایک معذور انسان ہے اور بچوں کو پالنے کیلئے کبھی مزدوری اور کبھی خیر و خیرات مانگتا رہتا ہے۔

اس حوالے سے رابطہ کرنے پر تھانہ بگنوتر پولیس نے ٹی این این کو بتایا کہ اطلاع ملتے ہی انہوں نے حمید کے گھر پر چھاپہ مارا۔ ثوبیہ کو بحفاظت بازیاب کراکر انکو علاج کیلئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں سب سے پہلے انکا میڈیکل چیک اپ کرایا گیا۔ ثوبیہ کو 3 سے 4 ماہ تک بکریوں کے ایک باڑے میں رکھا گیا تھا۔ پولیس نے کارروائی کے دوران ثوبیہ کی ساس اور ایک دیور کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کر دیا ہے جبکہ ابیٹ آباد کی پولیس جلد ہی حمید کو بھی گرفتار کرکے  قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ثوبیہ کو انصاف دلایا جائے گا۔

واقعے سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے رابطہ کرنے پر ثوبیہ کے بھائی محمد اشفاق نے ٹی این این کو بتایا کہ ثوبیہ کی حمید کیساتھ سات سال قبل شادی ہوئی۔ انکی عمر تقریبا 32 سال ہے اور ثوبیہ کی حمید سے کوئی اولاد نہیں۔ چونکہ یہ پرائے لوگ تھے تو شادی سے قبل انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ رشتہ ہونے کے بعد وہ ایک خاندان کیطرح رہیں گے۔ تاہم ثوبیہ کی شادی کے کچھ عرصہ بعد حمید نے ان سے تیس ہزار روپے مانگے لیکن انکے پاس پیسے نہیں تھے تو معزرت کر لی۔ اسی دن سے حمید اور اہل خانہ نے انکے ساتھ تعلقات کو خراب کرنا شروع کر دیا اور سات سال کے دوران وہ ثوبیہ کو یہ اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اپنے والد کے گھر چلی جائے۔ ان سات سال میں ثوبیہ اپنے والد کے گھر 3 یا 4 مرتبہ آئی ہوئی ہیں۔ انکے ساتھ انہوں نے ہر طرح کا آنا و جانا بند کر دیا تھا۔

محمد اشفاق نے مزید بتایا کہ کچھ عرصہ قبل جب انکی والدہ کا انتقال ہوا تو حمید نے ثوبیہ کو اپنی والدہ کے انتقال پر بھی آنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ کبھی کبھار حمید اور ثوبیہ کی ساس سے کہتے تھے کہ انکو کم ازکم اپنے والدین کی گھر آنے کی اجازت تو دیں لیکن وہ نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود علاقہ کھن، چم کے رہائشی ہے اور یہ جگہ دیسال درمڑھیا سے کافی دور ہے اسلئے بھی انکو اپنی بہن کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا رہا۔ لیکن اب پتا چلا کہ انکی بہن کو ایک کمرے میں اکیلا رکھا گیا جہاں وہ بکریوں کو بھی باندھتے رہے۔ ساس ثوبیہ پر تشدد کرنے کے بعد انکے زخموں پر کبھی تیزاب اور کبھی نمک بھی ڈالا کرتی تھی۔ انکی یہی اکلوتی بہن ہے اور وہ خود دو بھائی ہیں جو علاقے میں دیہاڑی وغیرہ کرتے ہیں۔

محمد اشفاق مزید کہتے ہیں کہ بازیابی کے وقت انہوں نے ثوبیہ کو جس حالت میں دیکھا تو وہ انتہائی افسردہ ہے کہ آخر وہ بھی تو انسان ہے۔ انکی بہن انتہائی کمزور ہو چکی ہے تاہم ابیٹ آباد کے سول ہسپتال میں داخل کرانے کے بعد اب انکی حالت میں بہتری آرہی ہے۔ علاج کرانے کے بعد ثوبیہ کو حمید کے گھر کی بجائے وہ اپنے ہی گھر کو منتقل کریں گے۔ وہ کبھی بھی بدلہ لینا نہیں چاہیں گے انکی ساری نظریں اب قانون پر ہے۔ وہ چاہتے ہیں انکی بہن کو انصاف ملے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button