آفتاب مہمند
خیبرپختونخوا پولیس نے 9 اور 10 مئی کو توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو میں ملوث ملزمان کے سہولت کاروں کیخلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔
یہ فیصلہ گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال کیجانب سے 200 سے زائد سہولت کاروں کی نشاندہی کے بعد کیا گیا ہے۔ بیرسٹر فیروز جمال نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماء بھی حکومت کو مطلوب ہیں۔ 9 اور 10 مئی کے پر تشدد واقعات میں جو بھی افراد ملوث ہیں انکو گرفتار کر لیا جائے گا تاہم ان ملزمان کو جس نے پناہ دی ہوئی ہے چاہے انکا تعلق صوبے کے کسی بھی علاقے سے ہو انکے خلاف بھی کاروائی کیجائے گی۔
سہولیات کاروں کے خلاف کاروائی کے حوالے سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں تو نگران صوبائی حکومت کے مطابق انکی تعداد 200 سے زائد ہے اور ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس حکام کے مطابق سہولت کاروں کی تفصیلات حاصل کرنے پر کام جاری ہے۔ سہولت کاروں کی نشاندہی، انکے خلاف کاروائی کرنے کیلئے پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ خصوصی کمیٹی سہولت کاروں کے چھان بین ودیگر ضروری معاملات دیکھے گی۔
کمیٹی وقتا فوقتاً صوبائی حکومت کو رہورٹ کرکے گی۔ پولیس حکام کے مطابق کئی سہولت کاروں کا باقاعدہ ڈیٹا پولیس نے دیگر قانون نافذ کرنے والے ادراوں کیساتھ ملکر اکھٹا کر لیا ہے جسکی شناخت کیلئے محکمہ نادرا کی مدد بھی لی جائے گی۔
پولیس حکام کے مطابق 9 اور 10 مئی کو توڑپھوڑ اور جلاوگھیراو میں ملوث ملزمان کے سہولت کاروں کیخلاف بھی قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ملزمان کو پناہ دینے والوں کیخلاف دفعہ 212 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔ پولیس کے مطابق فیصلہ ملزمان کی عدم گرفتاری کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
اسی حوالے سے ایک اہم ذرائع نے ٹی این این کو بتایا کہ جن سہولت کاروں کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ ابتدائی طور پر ان میں بعض گرفتاریاں ہو چکی ہیں اور کئی کے خلاف کاروائی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں 9 اور 10 مئی کو ہونے والے پر تشدد واقعات کے بعد پولیس کی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ صوبہ بھر میں اب تک 2800 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں 500 سے زائد ملزمان کی گرفتاری 3 ایم پی او کے تحت لائی گئی ہے۔ گرفتار ہونیوالوں میں خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق ممبران اسمبلی و پارٹی رہنما اربابِ جہانداد، لیاقت، شاہد خٹک، مینا خان و دیگر بھی شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جہاں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا تعلق ہے تو زیادہ تر رہنما روپوش ہیں جنکے گھروں پر پولیس کے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مراد سعید، اعظم سواتی، مومنہ باسط، فضل حکیم، بابر سلیم ہوتی و دیگر رہنماؤں کے خلاف چھاپے مارے گئے ہیں تاہم عدم موجودگی پر گرفتاریاں ابھی نہیں ہوئیں۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے 9 اور 10 مئی کو رونما ہونے والے پر تشدد واقعات میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف بھی کاروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق مزکورہ واقعات میں محکمہ بلدیات، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت یا دیگر سرکاری اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق انکے خلاف انضباطی رولز 2011 کے مطابق کاروائی کیجارہی ہے۔ میٹرو پولیٹن کا ملازم، یو ای ٹی کبل، سوات کا ملازم زاہد اللہ جیسے بعض سرکاری ملازمین کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔
خیبر پختونخوا کے مختلف اداروں کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مزید 60 ملازمین کو معطل کیا گیا ہے۔ پشاور سمیت خیبر پختونخوا میں معطل ہونے والے ملازمین کی تعداد 200 سے متجاوز کر گئی۔
معطل ہونیوالوں میں مردان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات محمد اسماعیل جیسے افسران بھی شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بھر میں اب تک 400 سے زائد ملازمین کو شوکاز نوٹسز جاری کئے گئے جن سے تفصیلی وضاحت مانگی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق 9 اور 10 مئی کو رونما ہونے والے پر تشدد واقعات میں ملوث تمام افراد بشمول ملزموں کو پناہ دینے والے سہولت کاروں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جارہی ہے۔