خیبر پختونخوا میں ایک ہفتے کے دوران 6 خواتین قتل، وجوہات کیا ہیں؟
خالدہ نیاز
خیبر پختونخوا میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مخلتف واقعات میں فائرنگ کرکے 6 خواتین کو قتل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق پہلا واقعہ 17 مارچ کو مانسہرہ میں پیش آیا جہاں شوہر نے میکے میں بیٹھی ناراض بیوی پر اس کے گھر میں فائرنگ کی۔ ڈی پی او مانسہرہ ظہور بابر آفریدی کے مطابق واقعہ تحصیل اوگی کے علاقے کوٹ میں رونما ہوا جہاں ساجد نامی شخص نے گھریلو جھگڑے پر اپنی بیوی، ساس اور دو سالیوں کو قتل کر دیا۔
دوسرا واقعہ اتوار کے روز 19 مارچ کو پشاور کے علاقے پخہ غلام میں پیش آیا جہاں گھریلو تنازعہ پر شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا۔ پولیس کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں ملزم کی بیوی، بیٹا اور سالی جاں بحق ہوگئی جبکہ آٹھ سالہ بچی سمیت دو خواتین زخمی ہوگئی۔
خیال رہے خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک میں اب تک سینکڑوں خواتین کو یا تو غیرت کے نام پر یا گھریلو تنازعات پر قتل کردیا گیا ہے۔
تین سال میں 4 ہزار کے قریب خواتین قتل
ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2019 سے 2021 کے دوران خواتین کے خلاف تشدد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔ صنفی بنیاد پر جرائم کے 63,367 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے، 3,987 خواتین کو قتل کیا گیا اور 10,500 سے زائد خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا، 2018 میں 180، 2019 میں 217 خواتین قتل
صرف سال 2019 میں خواتین کے خلاف 25,389 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2020 میں زیادتی اور ریپ سمیت دیگر جرائم کے 23,789 واقعات سامنے آئے۔ اسی طرح، 2021 میں، 14،189 مقدمات درج کیے گئے۔
قوانین کا عدم نفاذ خواتین کے خلاف جرائم کی ایک بڑی وجہ
خواتین اور خواجہ سراوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے د حوا لور کی چیئرپرسن خورشید بانو خواتین کے خلاف تشدد کے کیسز میں زیادتی کو قوانین کے عدم نفاذ کو قرار دیتی ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے خورشید بانو نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد کے حوالے سے قوانین تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس حوالے سے خواتین میں آگاہی بھی نہیں ہے۔
خورشید بانو نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ گھریلو تشدد کو گھر کا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے، خواتین مرجاتی ہیں لیکن ریاست اس میں تیسری پارٹی کا کردار ادا نہیں کرتا، دونوں فریقین آپس میں صلح صفائی کرکے کیس کو رفع دفع کردیتے ہیں یوں ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں۔
خواتین گھر والوں کے خلاف کیس دائر کیوں نہیں کرنا چاہتی؟
انہوں نے ایک حالیہ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گوجرانوالہ میں بھی ایک خاتون کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تو جب تک قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوگا اور لوگوں میں آگاہی نہ پھیلائی جائے تب تک قوانین کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بہت سو کو مار بھی دیا جاتا ہے تاہم صرف چند ایک ہی رپورٹ ہوتی ہے۔ خورشید بانو کے مطابق اکثر خواتین ان کے پاس ایسی بھی آتی ہیں جو انصاف تو چاہتی ہیں لیکن وہ گھر والوں کے خلاف کیس دائر نہیں کرنا چاہتی کیونکہ وہ کہتی ہیں کیس کرنے کے بعد کہاں جائے گی؟
خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کا قانون کب بنا؟
خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے سلسلے میں 15 جنوری 2021 کو بنائے گئے قانون کے تحت جسمانی تشدد کے علاوہ معاشی، نفسیاتی و جنسی دباؤ بھی خواتین پر تشدد کے زمرے میں آئیں گے اور تشدد پر 15 دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کرانا لازمی ہوگا اور عدالت کیس کا فیصلہ 2 ماہ میں سنانے کی پابند ہوگی۔
مردوں کا معاشرہ اور معاشی خودمختاری
دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان خیبر پختونخوا کے صوبائی کوآرڈینٹر شاہد محمود سمجھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مردوں کا ہے جہاں سارے اختیارات مرد کے پاس ہوتے ہیں، جب بھی کسی خاتون کو قتل کردیا جاتا ہے تو باقی خواتین کو چھپ کروا دیا جاتا ہے اور یوں ان کیسز کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہو پاتی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کی وجہ خود ان کا اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھانا بھی ہے کیونکہ جب تک وہ خود آواز نہیں اٹھائے گی تب تک کوئی بھی ان کے حق کے لیے بات نہیں کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سوات: 7 سال میں غیرت کے نام پر 229 افراد قتل
شاہد محمود نے بتایا کہ اس کے علاوہ قوانین پر عمل درآمد نہ کرنا، اداروں کا کمزور ہونا، عدالتوں میں لمبی لمبی تاریخیں اور گواہوں کی عدم دستیابی بھی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک حکومتی ادارے خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے تب تک اس کا خاتمہ مشکل ہے۔
خورشید بھی اس بات پرزور دیتی ہیں کہ حکومت قوانین کے ساتھ خواتین کو تحفظ دے اور ان کو معاشی طور پر خودمختار بھی بنائے تاکہ خواتین اپنے لیے بنائے گئے قوانین سے فائدہ اٹھا سکیں۔