جرائم

سوات: جنگلات کی کٹائی اور آگ لگانے پر 1948 افراد کے خلاف کارروائی

شہزاد نوید – سوات

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مختلف بالائی علاقوں میں جنگلات میدانوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات کے عملے کی ملی بھگت سے جنگلات کو ایک عام گھاس یا فصل کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ اب سوات کے مختلف علاقوں میں محکمہ جنگلات کے عداد و شمار کے مطابق 15 ہیکٹرز زمین کٹائی کی زد میں آ چکی ہے۔

موسم سرما میں لکڑیوں کی مانگ میں غیرمعمولی اضافے کے ساتھ ہی گھنے جنگلات سے قیمتی و نایاب لکڑیاں دیار، چیتر، چنار سمیت دیگر قیمتی درختوں کو کاٹ کر بڑی کیبن ڈاٹسن اور ٹرکوں میں لا کر روزانہ کی بنیاد پر گھروں میں جلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ ہرے بھرے درختوں کو کاٹ کر قریبی دکانوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تعلق رکھنے والے خریدار فضل کریم نے بتایا کہ بالائی علاقوں میں زیادہ تر لوگ لکڑیاں کاٹ کر گھروں میں استعمال کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ یہاں فروخت کرنے کے لئے لاتے ہیں، ”یہاں پر ہم ایک من لکڑی 600 سے لے کر 800 روپے تک فروخت کرتے ہیں لیکن جب ہم خریدتے ہیں تو ہم لکڑیوں کی نوعیت کو دیکھتے ہیں کسی سے ہم 300 اور کسی سے 400 روپے پر لیتے ہیں۔”

فضل کریم کے مطابق لکڑیاں فروخت کرنے والوں میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں کیونکہ زیادہ تر بالائی اور پہاڑی علاقوں میں نوجوان بے روزگار ہوتے ہیں تو وہ جنگلات سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لے کر آتے ہیں، ان لکڑیوں میں پاڑ، نختر، چینار، توت، بکائن اور سفیدے کی درخت ہوتے ہیں لیکن یہاں ہم ہر قسم لکڑیوں کا ایک ہی ریٹ لگاتے ہیں۔

زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین آلودگی سے بچاؤ کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگانے پر زور دے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے سوات سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں شہری جنگلات کی کٹائی میں مگن ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں موحولیاتی آلودگی نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا اہم سبب درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔

وزیراعلی خیبر پختونخوا کا گاؤں اور ٹمبر مافیا

سوات کی تحصیل مٹہ میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر درخت کاٹ کر لکڑی سمگل کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے لیکن محکمہ جنگلات کے حکام تاحال کٹائی کی تردید کرتے ہیں۔

پروفیسر شاہ جہان (فرضی نام) کے مطابق 12 نومبر 2022 میں سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقہ سلاتنڑ چنکارئی کے جنگلات میں کھلے عام قیمتی در ختوں کی بے دریغ کٹائی کی گئی ہے، کمپارٹ نمبر 21 اور 22 میں کھلے عام کٹائی کی جا رہی تھی جو انتہاہی افسوس ناک ہے۔

ٹمبر مافیا جنگلات کی کٹائی کر کے سلیپر اور لکڑی کو فروخت کرنے میں مصروف ہیں مگر فارسٹ اہلکار خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی فارسٹ آفیسر ایس ڈی ایف او ہمایون خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جنگلات کی کٹائی کی سختی سے تردید کی اور موقف اختیار کیا کہ علاقے میں کسی قسم کی قانونی یا غیرقانونی کٹائی نہیں کی جا رہی ہے۔

تحصیل مٹہ سے تعلق رکھنے عبد البصیر نے بتایا کہ متعدد مرتبہ محکمہ جنگلات کے ضلعی افسران، ضلعی انتظامیہ اور علاقے کے ذمہ داروں کو درختوں کی بے دریغ کٹائی کے حوالے سے فون اور واٹس اپ مسجز کے ذریعے سے اگاہ کیا ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مابین گٹھ جوڑ ہے۔

مقامی شہروں نے بتایا کہ ایک طرف سابق وزیراعظم عمران خان درخت لگانے کیلئے دن رات مہم جاری رکھے ہوئے تھے تو دوسری اس وقت بھی سرسبز و شاداب درختوں کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ نہیں رکا، جنگلات کے تحفظ کے لئے بہت سے موثر قوانین کی کمی ہے جس کی وجہ سے ٹمبر مافیا روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور قانون کمزور سے کمزور تر!

سیلاب اور بلین ٹری

سوات سمیت خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات آنے کے بعد ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ اگر حکومت یا عوام اختیاطی تدابیر اختیار کر لیتے تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے ہر آفت کے بعد ہم بیدار نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں دریائے سوات کا سیلابی ریلا بلین ٹری سونامی کا ایک حصہ اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ سیلاب سے سوات کے مختلف علاقوں میں کالام، بحرین، مدین، اشو، مٹلتان، مہوڈنڈ، چیل، گبین اور تحصیل مٹہ کے مختلف علاقوں میں سیلاب سے 512 کے قریب قیمتی اور نایاب درختوں کے ساتھ ساتھ 12 ہزار تک پودے بہہ گئے۔

حالیہ سیلاب میں دریائے سوات کا بہاؤ دو لاکھ 43 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا تھا جو 2010 کے سیلاب سے دگنا تھا۔

جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات

سیلاب سے قبل سوات کے جنگلات میں آتشزدگی نے ہر ایک کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا، مختلف تحصیلوں میں آگ لگنے سے جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔

سوات کے رحیم آباد مینگورہ، پٹھانے، کوزہ بانڈی، سیگرام، بریکوٹ، ابوہا، چارباغ، کبل، ملم جبہ، سیرتلی گرام، منگلور، مرغزار، کوکارئی، جامبل، پانڑ، رحمان آباد، کانجو، ٹاؤن شپ سمیت درجنوں مختلف مقامات پر آگ لگ گئی تھی جس کو بجانے کے عمل میں ریسکیو اہلکار، مقامی لوگ، پولیس اور پاک فوج نے بھرپور حصہ لیا تھا اور ہزاروں درختوں کو بروقت کارروائی کر کے بچا لیا تھا۔

ضلعی انتظامیہ سے حاصل کردہ عداد و شمار کے مطابق مختلف علاقوں میں آتشزدگی کے 22 واقعات رونما ہوئے جن میں 440 ہیکٹرز جنگلات کو نقصان پہنچا، صرف تین واقعات سرکاری جنگلات میں ہوئے باقی تمام واقعات شاملات کے جنگل یا لوگوں کی ذاتی ملکیت میں تھے۔

جنگلات کو آگ لگانے والے 40 کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن میں سے 20 افراد کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج ہو چکے اور ان کو عدالت کے تحت سزائیں بھی سنائی گئیں۔

مقامی شہریوں کا حکومت اور انتظامیہ سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ مجرموں کو پکڑ کر سخت سے سخت سزا دی جائے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر لگائی تھی۔

سوات میں بلین ٹری پراجیکٹ اور عداد و شمار

محکمہ جنگلات سوات سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ عداد و شمار کے مطابق سوات ڈویژن مین بلین ٹری پراجیکٹ میں 1 کروڑ 3 لاکھ 75 ہزار (10،375،000) درخت لگائے گئے۔ سال 2020 سے لے کر 2022 تک سوات فارسٹ ڈویژن میں صرف 1477 درخت غیرقانونی طور پر کاٹے گئے۔ محکمہ جنگلات کے مطابق جنگلات میں آتشزدگی سے صرف 471 درخت جل گئے۔

سال 2020 سے لے کر 2022 تک غیرقانونی طور پر جنگلات میں کٹائی کرنے والے 23 افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان کو قانونی طور پر سزائیں بھی دی گئیں جبکہ ان دو سالوں میں کرائم ایکٹ کے تحت 1694 افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔

سوات کے جنگلات اور تحقیقی ماہرین

پروفیسر نفیس سوات کے جنگلات پر سال 1993 سے کام کر رہے ہیں اور وہ مختلف واقعات کو اپنی ریسرج کا حصہ بناتے ہیں، ان کی ریسرج کے مطابق سال 1993 سے لے کر 2003 تک سوات میں آگ لگنے کے 20 واقعات ہوئے جن میں 3 واقعات عالمی سطح کی بڑی آگ کے سمجھے جا سکتے ہیں۔

پروفیسر نفیس کے مطابق عالمی سطح کی بڑی آگ کا مطلب ہے کہ سوات میں گزرتے دن کے ساتھ مختلف مقامات پر لوگ لکڑیاں جمع کرنے کے لئے آگ لگاتے ہیں اور کہیں پر لوگ گھاس کو جلانے کے لئے بھی یہ طریقہ کار اپناتے ہیں، یہ عموماً ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار آگ خطرناک حد تک بھڑک اٹھتی ہے جس سے قیمتی جنگلات سمیت چرند پرند کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور یہ واقعات بین الاقوامی میڈیا پر بھی رپورٹ ہوتے ہیں، ان تمام واقعات میں آگ مقامی افراد نے خود لگائی تھی، کئی لوگ پکڑے بھی گئے تھے مگر صرف ایک مجرم کو چار ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی۔

ڈی ایف او سوات کا موقف

سوات میں جنگلات کی کٹائی اور آتشزدگی پر ڈسٹرکٹ فارسٹ افسر محمد وسیم نے بتایا کہ جنگلات میں کٹائی اور آتشزدگی کے بعد ہماری ٹیمیں تفشیش کرتی ہیں اور ہم نہ صرف ملزمان کو گرفتار کرتے ہیں بلکہ ایک مکمل رپورٹ بھی تیار کر کے عدالت میں پیش کرتے ہیں اور ماضی میں کئی مجرمان نے سزا کاٹی اور جرمانے بھی بھرے ہیں۔

محمد وسیم کے مطابق جنگلات کی کٹائی کے نقصانات کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور مٹی کے کٹاؤ کے ساتھ ساتھ جنگل کی تباہی اور پودوں سمیت جانوروں کے حیاتیاتی تنوع کا ضیاع ہے۔

جنگلات میں آگ کیوں لگائی جاتی ہے؟

محمکہ جنگلات سوات کے مطابق جنگلات پر انحصار کرنے والی کمیونیٹیز روایتی طور پر مویشیوں کیلئے گھاس حاصل کرنے کیلئے خشک گھاس کو جلا دیتی ہیں، جبکہ زمینوں کو صاف کرنے کیلئے بھی آگ لگائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں بعض اوقات غیرذمہ دارانہ اور تیز ہواؤں کی وجہ سے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔

آتشزدگی کے واقعات اور آڈٹ رپورٹ

خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ نے بلین ٹری سونامی منصوبے کی شفافیت پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔

محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق رواں سال خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آگ لگنے کے 358 واقعات سامنے آئے جن میں 313 زمینی، 34 سطحی اور شاخ دار یا چوٹی دار واقعات شامل ہیں۔

دستاویز کے مطابق آگ کے 43 فیصد واقعات نجی جنگلات سے رپورٹ ہوئے جبکہ 26 اعشاریہ 9 فیصد واقعات محفوظ جنگلات سے سامنے آئے، اسی طرح 13 فیصد عوامی جنگلات، 7 اعشاریہ 8 فیصد ممنوعہ جنگلات اور 6 اعشاریہ 3 فیصد واقعات گزارہ جنگلات سے رپورٹ ہوئے ہیں۔

محکمہ جنگلات کے مطابق ممنوعہ جنگلات کی زمین اور درخت دونوں حکومت کی ملکیت ہے۔ گزارہ جنگلات میں زمین اور درخت دونوں لوگوں کی ملکیت ہے تاہم انتظام و انصرام کی ذمہ داری محکمہ جنگلات کے پاس ہوتی ہے جبکہ عوامی جنگلات قوم کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔

محکمہ جنگلات کی جاری کردہ معلومات کے مطابق آگ لگنے کے واقعات سے بلین ٹری منصوبے کا 436 ہیکڑ رقبہ بھی متاثر ہوا جو 1 ہزار 77 ایکڑ، 8 ہزار 619 کنال یا پھر 1 لاکھ 72 ہزار 380 مرلہ رقبہ بنتا ہے

بلین ٹری کی شفافیت

ایک طرف جنگلات میں آگ لگنے کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بلین ٹری سونامی منصوبے میں بے قاعدگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 3 سالہ خصوصی رپورٹ میں منصوبے میں 3 ارب 49 کروڑ 35 لاکھ روپے سے زیادہ کی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔

جنگلات کی کٹائی اور وزیراعلی کا دوٹوک موقف

وزیراعلی خیبر پختونخوا نے حالیہ دورہ سوات کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے بتایا کہ درختوں کی کٹائی کے خلاف صوبائی حکموت کی مسلسل اور واضح ہدایات کے باوجود درختوں کی کٹائی ناقابل برداشت فعل ہے، سوات سمیت مختلف اضلاع میں درختوں کی کٹائی پر پابندی کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

وزیراعلی محمود خان کے مطابق جنگلات کی کٹائی میں مزید غفلت برداشت نہیں کی جائے گی اور غفلت کے مرتکب ذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔

خیبر پختونخوا میں اگ لگنے کے واقعات اور نقصانات

دستاویز کے مطابق آگ کی وجہ سے مجموعی طور پر 18 ہزار 795 ایکڑ زمین متاثر ہوئی جس میں نجی جنگلات کی 6 ہزار 315 ایکڑ (33 اعشاریہ 61 فیصد)، عوامی جنگلات کی 6 ہزار 301 ایکڑ (33 اعشاریہ 53 فیصد)، محفوظ جنگلات کی 2 ہزار 880 ایکڑ (15 اعشاریہ 32 فیصد)، ممنوعہ جنگلات کی 2 ہزار 472 ایکڑ (13 اعشاریہ 15 فیصد) اور گزارہ جنگلات کی 824 ایکڑ (4 اعشاریہ 30 فیصد) زمین متاثر ہوئی ہے۔

کُل 358 واقعات میں 38 (10 اعشاریہ 5 فیصد) واقعات قدرتی وجوہات کی وجہ سے پیش آئے جبکہ 64 (18 فیصد) واقعات لوگوں کے آگ لگانے کی وجہ سے سامنے آئے، جن میں تفریحی مقصد کے لیے جنگلوں میں آنے والے سیاحوں کا غیردانستہ طور پر آگ کا سبب بننا بھی شامل ہے تاہم محکمہ جنگلات کو 256 (71 اعشاریہ 5 فیصد) واقعات کی وجوہات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔

جنگلات کی حفاظت کیوں ضروری ہے؟

ماہر ماحولیات ڈاکٹر اکبر زیب نے بتایا کہ 2010 کے بعد ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سوات سے متعدد نایاب پرندے بھی نقل مکانی کر چکے ہیں، پہلے طالبان اور پھر ان سے علاقہ کلیئر کروانے کے لئے فوجی آپریشن، پھر سیلاب اور زلزلوں نے پرندوں کو سوات سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا جب کہ تین ماہ قبل 60 سے زائد مختلف جنگلات میں آتشزدگی کے باعث سینکڑوں چرند پرند متاثر ہوئے۔

اکبر زیب کے مطابق جنگلات پر دو ارب سے زیادہ افراد اپنی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ پناہ گاہیں، روزگار، پانی، خوراک اور دیگر سیکڑوں چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں لیکن ہم امید کر سکتے ہیں کہ ماہر ماحولیات، تعلیم، کسان، زمین دار، نجی شعبہ جات اور سب سے بڑھ کر حکومت جنگلات کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کریں گے تاکہ وہ مستقبل میں لاحق خطرات سے محفوظ ہوں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button