پاکستان کے بدعنوان ترین ادارے: پولیس، عدلیہ، ٹھیکیداری نظام اور محکمہ تعلیم
رفاقت اللہ رزڑوال
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) پاکستان نے اپنی ایک سروے رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ بدعنوان ادارے بالترتیب پولیس، عدلیہ، ٹھیکیداری نظام اور محکمہ تعلیم ہے جبکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے اور تحقیقاتی اداروں کو مضبوط اور غیرسیاسی کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹی آئی پاکستان نے جمعہ کو نیشنل کرپشن پرسپشن سروے (این سی پی ایس) 2022 کے نام سے جاری کردہ اپنی سروے رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی محکمہ پولیس بدعنوانی میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ٹھیکیداری نظام، تیسرے پر عدلیہ اور چوتھے پر محکمہ تعلیم ہے۔
خیبر پختونخوا کے سابق سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ جاری کردہ سروے تاثر کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جن محکموں سے عوام کا واسطہ پڑے اور ان کا کیا تجربہ رہا ہو تو یہ اسی تجربے اور تاثر کو بنیاد بنا کر سروے ریلیز کرتے ہیں۔
اختر علی شاہ کہتے ہیں "ہر پارٹی کے منشور میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ وہ کرپشن کی بیخ کنی کریں گے اور اس کے لئے بڑی سطح پر تحقیقاتی ادارے بنائے گئے ہیں مگر نچلی سطح پر حال یہ ہے کہ جب آپ کسی فائل کو پہیے (رشوت) نہیں لگاتے ہو تو وہ آگے حرکت نہیں کر سکتی ہے۔”
ڈاکٹر اخترعلی شاہ کا ماننا ہے کہ گورننس کی اہم بنیاد قانون کی حکمرانی ہے اور قانون کی حکمرانی میرٹ اور انصاف کے ساتھ جڑی ہوتی ہے مگر جب کرپشن موجود ہو تو یہ ساری کارکردگی زیرو بنا دیتی ہے جس کی وجہ سے ریاست پر عوام کا عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔
انہوں نے یورپی ممالک کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ یورپی ممالک اور امریکہ میں تو کرپشن ایک بڑا عیب تصور کی جاتی ہے جہاں پر اگر کوئی اختیارات سے معمولی سا تجاوز کرے تو بھی استعفیٰ دے دیتے ہیں اور اس کی وجہ عوامی شعور ہے۔
سروے رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں پہلے نمبر پر محکمہ تعلیم، دوسرا محکمہ پولیس جبکہ تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ بدعنوانیاں ٹھیکیداری محکمہ میں ہو رہی ہیں، اسی طرح پنجاب میں ٹھیکیداری محکمہ پہلے اور عدالتی نظام دوسرے نمبر پر ہے جبکہ بلوچستان میں سب سے زیادہ رشوت ٹھیکیداری اور محکمہ پولیس میں لی جاتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں عدالتی نظام پہلے، ٹھیکیداری نظام دوسرے اور محکمہ پولیس تیسرے نمبر پر بدعنوان ادارہ قرار دیا گیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کی وکیل ایڈوکیٹ زینت محب کاکاخیل نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ سروے کے ساتھ اتفاق کرتی ہیں کیونکہ نچلی سطح پر کرپشن عام بات تصور کی جاتی ہے۔
ایڈوکیٹ زینت کا کہنا ہے "عدالتی سطح پر کرپشن کی بات سے میں زیادہ اتفاق نہیں کرتی کیونکہ عدالت میں ہائی لیول پر کرپشن انہوں نے نہیں دیکھی ہے، ہاں! البتہ نچلی سطح پر مثلاً اسٹینو یا ریڈر ہے تو پیشی کیلئے تاریخ آگے یا پیچھے کرنے کیلئے انہیں رشوت دی جاتی ہے تو اس میں رشوت دینے والے کا فائدہ ہوتا ہے اور اس بات سے میرا اتفاق ہے۔”
کہتی ہیں ” کچھ وکلاء عدالتی احاطے میں اپنے ٹاؤٹس رکھتے ہیں جو کمیشن پر ان کے لئے کیسز لیتے ہیں، ہمارے وکلاء نے کئی ایسے کیسز پکڑے ہیں جن میں کلائنٹ کو اپنی وکیل چاہئے ہوتی ہے لیکن ٹاؤٹس کمیشن کے چکر میں اپنے وکیل کے پاس لے جاتے ہیں تو ایسے بھی کافی کیسز سامنے آئے ہیں۔”
زینت محب نے بدعنوانی روکنے کیلئے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی نظام میں شکایات سیل کا قیام کریشن کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاکہ لوگ اپنی شکایت درج کریں اور اس پر فوری ایکشن لیا جائے۔
سروے رپورٹ میں خیبر پختونخوا کی 43 فیصد اور بلوچستان کی 32 فیصد عوام سمجھتی ہے کہ کرپشن میں اضافے کی بڑی وجہ بدعنوانی کے مقدمات میں فیصلوں کی تاخیر ہے۔
خیبر پختونخوا میں ماہر تعمیرات انجینئر محمد اسلام نے ٹی این این کو بتایا کہ موجودہ حکومت آنے کے بعد ٹھیکوں کا نظام آن لائن ہو گیا ہے جس میں آن لائن طریقے سے بل آف کوانٹیٹی میں تعیمراتی سامان کا ذکر اور اخراجات رکھے جاتے ہیں جس کے بعد سیکرٹری یا متعلقہ وزارت اس کا جائزہ لیتی ہے مگر وہاں پر بھی بڑی سطح پر بدعنوانیاں ہوتی ہیں۔
محمد اسلام کہتے ہیں "جب ٹھیکیداروں سے پروفارمے وصول کئے جاتے ہیں تو وزارت اور سیکرٹری لیول پر کمیشن وصول کیا جاتا ہے اور اس کے لئے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ گو کہ فلاں کمپنی کے اخراجات زیادہ ہیں مگر یہ بروقت اور اچھے نتائج دے سکتی ہے جس کے لئے بڑی رقم خزانے سے نکلوائی جاتی ہے۔”
انجینئر محمد اسلام کا کہنا ہے کہ ٹھیکہ اپرؤ ہونے کے بعد جب ٹھیکیدار کام شروع کرتا ہے تو زیادہ مارجن رکھنے کی خاطر ناقص مٹیریل کا استعمال کرتا ہے اور پھر اسے رشوت ہی کے ذریعے انجینئر سے اپرؤ کرتا ہے۔
این سی پی ایس 2022 میں کرپشن کی روک تھام کے قومی ادارے نیب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان کی 35 فیصد عوام نیب کو ایک غیرموثر ادارہ سمجھتی ہے۔
سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کی فہرست میں پاکستان 180 ممالک میں 140 نمبر پر ہے مگر سروے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے