ارم رحمٰن
” کرپشن” کا مطلب عمومی طور پر بدعنوانی لیا اور سمجھاجاتا ہے لیکن اس کا لغت میں معنی ” خراب ،ٹوٹا ہوا یا عیب دار چیز ” ہے یعنی” بدعنوانی "اس کا معاشرتی لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ ناجائز اختیار اور ذرائع جیسے رشوت ،سفارش، اقربا پروری یا کوئی ذاتی مفاد کے بدلے میں کسی ایسے انسان کو کوئی عہدہ یا کوئی بھی چیز دی جائے جس کا درحقیقت وہ شخص بلکل حقدار نہ ہو ۔
یہ بدعنوانی حکومتی اور سماجی سطح پر شدت اختیار کرتی جارہی ہے اس لیے اس کے خاتمے کی کوشش شروع کردی گئی ہے بین الاقوامی یوم انسداد بدعنوانی ساری دنیا میں ہر سال 9 دسمبر کو منایاجاتا ہے ،اس دن کو منانے کا مقصد ملک میں پھیلی کرپشن اور نانصافی کے خاتمے کے لیے کام کیاجائے تاکہ ہر کام میرٹ کے مطابق ہو اور عوام بڑھی ہوئی مایوسی اور ناامیدی ختم کی جا سکے ، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے والدین ،اساتذہ ، سول سوسائیٹی اور میڈیا کو اس کے خلاف تحریک چلانی چاہیے
کرپشن حد سے بڑھ چکی ہے اور ہماری روزمرہ زندگی میں معاشرے کا حصہ بنتی جارہی ہے جبکہ سماج کی تہذیب واقدار کو بھی کھوکھلا کر رہی ہے۔
اب کوئی بھی شخص کسی بھی میرٹ پر پورا اترنے کے لیے محنت سے زیادہ بدعنوانی کا سہارا لینا ضروری سمجھتا ہے
اسے پتہ ہے کہ رشوت اور سفارش کی عدم دستیابی اسے اسکے جائز حق سے محروم کرسکتی ہے
حالیہ دور میں تو بدعنوانی صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ نچلی سطح سے لے حکومتی بلکہ بین الاقوامی سطح تک اس کی جڑیں پھیل چکی ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر بھی اس کے شواہد ملتے ہیں عام چھوٹی موٹی سطح پر نوکری پیشہ افراد اپنے افسران کو تحفے تحائف دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی ترقی ہوسکے یا ان کو دیگر مراعات حاصل ہوسکیں۔
اس طرح صرف اپنے رشتے داروں کو مختلف قسم کے ٹھیکے دینا ، جاننے والوں کے مفادات کے جھوٹ بول کر رشوت دے کر ان کے جرائم پر پردہ ڈالنا لائیسنس بنوا دینا جس کا صرف چند لوگوں کو ہی فائدہ ہو لیکن عوام اور ملک کو نقصان پہنچے، ذخیرہ اندوزی ، غریبوں کے نام پر این جی او بنا فنڈ کے نام پر لینے یا ملنے والا مال ہڑپ کر لینا اور اسطرح بہت سے تجارتی و معاشی کاموں میں دھوکہ دے کر بڑی رقم خرد برد کر دینا یہ سب بدعنوانی ہی کے زمرے میں آتا ، چھوٹے ترین پیمانے پر تو غلط گندہ گلا سڑا مال گاہک کو فروخت کرنا ، کھانے پینے کی اشیاء میں شدید ملاوٹ کرنا ،یا غلط ناقص اشیاء خوردونوش کو بہترین بنا کر پیش کرنا حتیٰ کہ جعلی دوا سازی اور ہر قسم کی ضروریات زندگی جو آرام سے سستے داموں مل سکتی ہے اس کو اس کی قیمت سے کئ گنا قیمت پر بیچنا یا اصلی کی قیمت میں نقلی چیز فروخت کرنا ،بسا اوقات تو یہ بھی سننے میں آیاکہ عمرے اور حج کی سعادت بھی رشوت دئیے بنا حاصل نہیں ہو سکی۔
آپ کو ایک لمبی فہرست ملے گی اگر آپ سوچنے بیٹھیں ،ہر سطح پر ہر طرح کی بدعنوانی واضح نظر آئے گی ,
آئے دن ترقیاتی کاموں میں لگنے والا میٹریل اربوں کھربوں روپے کی لاگت سے بننے والی عمارتیں پل،سڑکیں ،سب ناقص میٹریل کے بنائے جاتے ہیں جو تھوڑے عرصے بعد ہی خراب اور برباد ہوجاتے ہیں کیونکہ زیادہ رقم ٹھیکداروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی جیب میں جاتی ہے ہلکا سستا میٹریل استعمال کیا جاتا ہے جو بہت نا پائیدار ہوتا ہے
پاکستان کے حالیہ سیلاب نے بدعنوانی اور کرپشن کی کئی دل دہلا دینے والی داستانوں کے راز کھول دئیے ،
جیسے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سیلاب کی وجہ سے بہت بڑی عمارتوں ،پل اور ہوٹلز کوشدید نقصان پہنچا ، تحیقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دریا کے کناروں سے آگے مزید 20 فٹ تک کی جگہ پر تعمیرات کی گئ تھیں تاکہ عوام اور سیاحوں کو وہاں رہنے میں زیادہ کشش محسوس ہو سکے کاروبار چمکے لیکن جب دریا میں جب طغیانی آئی تو راستے میں جو بھی رکاوٹ آئی وہ بہا کر لے گیا اور تجاوزات نے بپھرے ہوئے پانی کو بہنے کا موقع نہیں دیا اور سب قیمتی بلند و بالا عمارات خس وخاشاک کے ڈھیر کی طرح بہہ گئیں۔
صوبہ سندھ میں عرصہ دراز سے خراب سیوریج سسٹم کی وجہ سے پانی کے بہاؤ کی کوئی جگہ نہیں تھی ،اس طرح کراچی شہر کو صاف رکھنے کے لیے ، گندے پانی کے نکاس کے لیے 538 نالے بنائے گئے تھے جن میں سے صرف 35, 40 نالے ہی بچے ،باقی سب نالوں پر رہائشی سکیمیں بنا دی گئیں اور یہ بات بلکل صاف ہے کہ جب تک حکومتی سطح سے منظوری نہ ہو کہیں بھی رہائشی منصوبے نہیں بنائے جا سکتے ملتان میں سب سے قیمتی آموں کے پانچ لاکھ درخت کاٹ دئیے گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
2005 کے شدید زلزلے میں مارگلہ ٹاور نامی عمارت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئ اور آدھا حصہ زمین بوس ہو گیا جبکہ اس عمارت کو بنے کچھ ہی سال ہوئے تھے اور اسے بنانے والا ٹھیکدار ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا یہ سب نچلی سطح سے حکومتی سطح تک کی بدعنوانیوں میں شمار ہوتی ہیں محکمہ پولیس جتنی با اختیار ہے کہ وہ کسی بھی بے گناہ شخص کو مجرم ثابت کر دیتی ہے رشوت اور بھتے لینا عام روش ہے جھوٹی رپٹ اور ایف آئی آر کٹوانا تو کسی امیر شخص کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ،
تفتیش کو لٹکانا ہو یا کسی ذاتی عناد کی بنا پر کسی بے قصور شخص کو تھانے میں بند کروا کر زمانے بھر میں رسوا کرنا کوئی مشکل کام نہیں افسوس ناک بات عدلیہ بھی کہیں نہ کہیں ان بدعنوانیوں میں ملوث نظر آتی ہے۔
معاشرے کی نا انصافیاں اور ہر طرح کے غیر دیانتدار روئیے اور برے سلوک ،جیسے والد کی وراثت میں اکثریت بہنوں کا حصہ نہیں دیتی ، بد عنوانی کی بہت بڑی مثال ہے بد عنوانی سے بچنے اور خاتمے کے لیے نیب 16 نومبر 1999 کو صدر کے فرمان کے اجرا کے ذریعے معرض وجود میں آئی، جو 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کی فوجی طاقت کے فورا” بعد بنایا گیا۔
"قومی احتساب بیورو ” پاکستان کا سرکاری ادارہ ہے جو بدعنوانی سے متعلق ہے پارلیمینٹ سے نیب آرڈینینس میں حالیہ ترامیم کے بعد قومی احتساب نئے قانون پر من وعن عمل درآمد کرے گا اسے 21 ستمبر 2022 آرڈینینس کا نام دیا گیا ہے۔
اس کے مطابق کرپشن کے وہ مقدمات جن میں 50 کروڑ روپے سے زیادہ کی بدعنوانی ہوئی ہو اور دھوکہ دہی کے وہ مقدمات جن میں متاثرین کی تعداد کم ازکم 100 ہو صرف وہی لیے جائیں گے۔
اجلاس میں طے پایا کہ احتساب واپس بھیجے گئے کیسز متعلقہ عدالتوں میں بھیجے جائیں گے، نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے جلد بازی میں نیب آرڈینینس میں ترامیم کی گئ ہیں اس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے لیے دراوزے کھول دئیے گئے ہیں بدعنوانی نیب کے زمرے میں آئے گی لیکن اس سے زیادہ رقم کی بدعنوانی کے مقدمات بہت کم ہوں گے۔
بد عنوانی دور کرنے والے ادارے کیا کرسکتے ہیں جبکہ قانون کوخود ہی محدود پیمانے پر مجرم کی پکڑ مقصود ہو ، سب طاقتور اور اثر رسوخ والے امراء، اشرافیہ سب ان قوانین کی گرفت سے آرام سے آزاد پھرتے رہیں، کیونکہ اب تک نیب کی کارکردگی اور آرڈینیس کی ترامیم کسی بھی بڑے مگر مچھ کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے اور بہت ممکن ہے کہ مجرموں کی خاطر خواہ پشت پناہی بھی کرے۔ واللہ عالم