خادم آفریدی گرفتار: ضلع خیبر کے صحافیوں نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا
ضلع خیبر کے تینوں پریس کلبوں کے صحافیوں نے جمرود باب خیبر کے مقام پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور صحافی خادم خان آفریدی کو فوری طور پر رہا کرنے اور واقعے کی آزادانہ تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
جمرود باب خیبر کے مقام پر کئے گئے احتجاجی مظاہرے میں صحافیوں کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان تحصیل باڑہ کے چیئرمین مفتی کفیل، جمرود سے سید کبیر آفریدی، سماجی شخصیت شاکر آفریدی، خیبر یونین پاکستان کے زاہد اللہ اور پی ٹی ایم عہدیداران نے شرکت کی۔
اس موقع پر مظاہرین نے جمرود پریس کلب سے باب خیبر تک احتجاجی ریلی نکالی جس نے باب خیبر پر مظاہرے کی شکل اختیار کر لی، مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے اور سی ٹی ڈی و ڈی پی او کے خلاف نعرے بازی کی۔
تینوں پریس کلبوں کے صحافیوں نے حکومت اور تمام اداروں سے مطالبہ کیا کہ صحافی خادم خان آفریدی کو فوری طور پر رہا کیا جائے جبکہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بنایا جائے اور اس میں ملوث تمام اہلکاروں کو نشان عبرت بنایا جائے اور ساتھ میں صحافتی حلقوں سے معافی مانگی جائے۔
صحافیوں نے کہاکہ یہ ایک ادارے کی کارکردگی کی پر سوالیہ نشان ہے کہ جو ایک نہتے صحافی کو بغیر کنفرمیشن اور بغیر تحقیقات کے اٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کرے اور بعد میں وضاحتیں پیش کرے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر صحافیوں کے ساتھ اس طرح کا روایہ روا رکھا جا سکتا ہے تو عام شہریوں کا کیا حال ہو گا۔
صحافیوں نے علاقے کے منتخب نمائندوں؛ ایم این ایز، ایم پی ایز اور سیاسی پارٹیوں کے کردار پر مایوسی کا اظہار کیا کہ جنہوں نے صحافیوں کے ساتھ نہ کوئی یکجہتی کا اظہار کیا اور نہ ہی ان کی کوئی آواز سنی۔
تینوں پریس کلبوں کے صحافیوں نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ تمام سرکاری اور منتخب نمائندگان کی تقریبات سے اس وقت تک بائیکاٹ ہو گا جب تک صحافی خادم خان آفریدی کو رہا نہیں کیا جاتا، نیشنل پریس کلب اسلام آباد، وزیر اعلی ہاؤس، آئی جی پی خیبر پختونخوا اور دیگر اعلی شخصیات کے دفتروں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے جبکہ اس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل بنایا جائے گا۔
صحافیوں نے کہا کہ مزید قبائلی صحافیوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی، پاکستان کے تمام ادارے قبائلی صحافیوں کی قربانیوں کو تسلیم کریں، ان کو حقوق دیں نہ کہ قبائلی صحافیوں کو اس طرح اٹھا کر ان پر تشدد کیا جائے اور ان کو ہراساں کیا جائے۔