سیاستکالم

انگنت مسائل، گفتار کے غازی اور عالمانہ فاضلانہ تبصرے

ڈاکٹر سردار جمال

جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو عوام کی طرف سے عجیب و غریب سوالات کھڑے کئے جاتے ہیں۔ ان ماہرانہ، عالمانہ اور تفکرانہ سوالات کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سقراط کی اکیڈمی سے فارغ التحصیل کوئی نامی گرامی دانشور ہوں، جس طرح روزانہ کی بنیاد پر ہم مسائل کا سامنا کرتے ہیں تو دوسری طرف ہر مسئلے پر عالمانہ اور فاضلانہ تبصرے کرنا اس مظلوم، محکوم اور مجبور قوم کے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے۔

چند دن پہلے مفتی سردار علی ٹریفک حادثہ میں وفات ہوئے، بے شک ہمارے لئے ہر انسان کی موت دل خراش ہے، چونکہ مفتی صاحب ایک سوشل فگر تھے، جن کی وجہ شہرت ان کا منفرد طرز بیان تھا جو لفظ ”توجہ” تکیہ کلام طور پر استعمال کرتے تھے، اس لئے ان کا یہ تکیہ کلام ان کی پہچان بن کر وہ ”توجہ ملا” کے نام سے مشہور ہوئے، اگرچہ وہ یہ تکیہ کلام مدتوں سے استعمال کرتے تھے مگر جب آپ نے کورونا بیماری کی نفی کر کے پرجوش تقریر کی اور فرمایا کہ کورونا کوئی بیماری ہے ہی نہیں اور نہ SOPs کوئی کارآمد چیز ہیں، لیکن ان کا بیان سائنسی لحاظ سے حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف تھا اس لئے ان کو رجوع کرنا پڑا اور واضح الفاظ میں اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ آپ کے یوٹرن نے عوام میں اتنی شہرت پائی کہ وہ ایک مشہور ملا بن گئے۔

تو میں بات کر رہا تھا مفتی سردار علی صاحب کی حادثاتی موت کی، تو اس بارے مختلف قسم کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ سوالات تو بہت سارے ہیں مگر ایک سوال، یا الزام کہہ لیں، مشترک ہے؛ اور وہ یہ کہ مفتی صاحب کی موت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وقوع پذیر ہوئی ہے (راقم کا مقصد عوام کی رائے پیش کرنا ہے)۔ اور سب نے حکومت وقت سے پوری طرح چھان بین کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

اس کے ساتھ ہی شہباز گل اور مفتی صاحب کی ٹریفک حادثے کا موازنہ بھی کیا جا رہا ہے۔ تبصرہ کرنے والے آگے عرض کرتے ہیں کہ شہباز گل کے ڈرائیور وغیرہ سے پوری طرح پوچھ گچھ جاری ہے اور اس بات کی تصدیق کی جا رہی ہے کہ شہباز گل کا ٹریفک حادثہ کہیں سوچا سمجھا منصوبہ تو نہیں ہے؟ فیس بک کے دوراندیش یوزرز/صارفین آگے خواہش ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شہباز گل کی طرح مفتی صاحب کی حادثاتی موت کی بھی تکنیکی بنیادوں پر چھان بین کی جائے۔

ان باتوں کو سن کر دل بہلا کر شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ایک باشعور اور باضمیر باشندوں میں رہ کر سانسیں لے رہے ہیں لیکن سیاسی اپروچ نہ ہونے کی بنیاد پر ہماری تمام خواہشیں بے بنیاد اور احمقانہ ہیں۔ اور وہ ایسے کہ ہم صرف اپنے قدموں کی حد تک دیکھ کر سوچتے ہیں اور جب مصیبت آن پڑتی ہے تو ہم پشتون کا مقابلہ پنجابی کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہمارا سیاسی نظر بہت کمزور ہے، ہم زمینی حقائق سے نالاں ہیں، ہم قوم پرستی کو کفر سمجھتے ہیں اور پھر عجیب منطق یہ ہے کہ مسائل کا حل قوم پرستی میں ڈھونڈتے ہیں۔

آج اگر ہم مفتی صاحب کے بارے میں آواز اٹھانا چاہتے ہیں تو یہ سب قوم پرستی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم کو معلوم ہی نہیں کہ پنجابی قوم پرست ہیں اور پنجابی مشران اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ان کے مشران رعایا کی تکلیف میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اس لئے جب پنجابی مشران کے لئے آواز اٹھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کی رعایا ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے۔

دوسری طرف پشتون قوم ڈرون حملوں، فوجی آپریشنوں، دہشت گردوں کی یلغار، بھوک و افلاس اور دیگر کئی قسم کی تکالیف میں جکڑی ہوئی ہے لیکن ہمارے مشران اس ظلم و ستم میں مرنے والے کو شہید جبکہ بچنے والے کو غازی قرار دے کر بدامنی اور خون ریزی کو طول دے رہے ہیں، ہمارے مشران اپنی قوم سے بے خبر کشمیر، فلسطین اور افغانستان وغیرہ میں حہاد کے بارے میں فکرمند ہیں۔ لیکن وقت بھی ایک اچھا محتسب ہے، جو وقت آنے پر خوب احتساب بھی کرتا ہے۔

Sardar Jamal
ڈاکٹر سردار جمال پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں لیکن ان کی نظر مریض کے ساتھ ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہوتا ہے اور وہ اکثر ملکی اخبارات میں سیاسی و سماجی امراض کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button