جرائم

مردان: لڑکے کی ناجائز تعلقات کی پیشکش کا لڑکی نے گولی سے جواب دے دیا

عبدالستار

ضلع مردان کی تحصیل کاٹلنگ میں لڑکی نے لڑکے پر فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔ پولیس تھانہ کاٹلنگ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے روز سولہ سالا لڑکی نے اپنی والدہ کے ہمراہ پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرتے وقت بتایا کہ وہ جانوروں کے اوپلے دیوار پر لگا رہی تھی کہ اس دوران مسمی عباس ولد رحمان غنی عمر 21 سال سکنہ چیچاڑ آیا اور مجھے پیسوں کے عوض جنسی تعلقات قائم کرنے کے لئے تو میں نے جواب میں اسے کہا کہ انتظار کرو میں آ رہی ہوں، گھر جا کر اپنے بھائی کی پستول اٹھائی اور واپس آ کر اپنی حفاظت کی خاطر لڑکے پر فائرنگ کر دی جس سے وہ لگ کر زخمی ہو گیا، مذکورہ لڑکی نے بتایا کہ اپنی عزت عفت کو بچانے اور زنا کی طرف راغب کرنے پر ملزم کے خلاف دعویداری کر رہی ہوں۔

پولیس نے کم عمر لڑکی کی رپورٹ پر ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ضلعی پولیس ترجمان کے مطابق لڑکی کی فائرنگ سے زخمی ہونے والا شخص مردان میڈیکل کمپلیکس میں زیرعلاج ہے اور اسے جب زخمی حالت میں مردان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال پہنچایا گیا تو اس نے ہسپتال پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے کھیتوں میں موجود تھا کہ نامعلوم ملزم نے اس پر فائرنگ کر کے اسے زخمی کر دیا جبکہ اس کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، ہسپتال کا مراسلہ پولیس سٹیشن کاٹلنگ کو موصول ہو چکا ہے۔

مردان سے تعلق رکھنے والے ہائی کورٹ کے وکیل اکبر ہوتی نے کہا کہ قانوں میں اگر کوئی انسان اپنی حفاظت میں جو بھی عمل کرے اور اس سے جو بھی نقصان ہو اسے سزا نہیں دی جا سکتی چاہے وہ مرد ہو یا عورت کیونکہ قانون سب کے لئے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی خاتون یا مرد اس قسم کا دعوی کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی حفاظت میں کسی کو مار دیا ہے، اسے وہ ثابت کرنا ہو گا تو ہی عدالت اسے ریلیف دے گی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈاکٹر زاہداللہ نے کہا کہ لڑکی کی رپورٹ پر زخمی ہونے والا ملزم ہسپتال میں پولیس کے زیرحراست ہے اور جب وہ ہسپتال سے فارغ ہو جائے گا تو جسمانی ریمانڈ کے لئے عدالت میں پیش کیا جائے گا جس کے بعد اس سے مزید تفتیش ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں پاکستان پینل کورٹ کی دفعہ 100 کو شامل کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اپنے حق حفاظت کے لئے لڑکی نے ملزم پر فائرنگ کی تھی جس میں لڑکی بے گناہ ہے، مردان میں پہلے کی طرح اب بچوں کے جنسی کیسز اتنے نہیں آ رہے جتنے بچھلے سال آ رہا تھے، اب پالیسی بھی بدل گئی ہے اور اگر کسی بچے کے ساتھ زیادتی رپورٹ ہو جائے تو اس کیس میں ہم صلح کرنے نہیں دیتے اور ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرتے ہیں۔

خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی اور ڈی آر سی مردان کی ممبر نصرت آراء نے کہا کہ مردان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا ہراسگی کے کیسز اب کم ہو گئے ہیں، گزشتہ سالوں میں پے در پے واقعات رپورٹ ہو رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ گجر گڑھی کی بچی اسماء کے کیس میں ملزم کو سزا ہو گئی، اس طرح تخت بھائی اور منگا میں بھی بچے بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور اب کیسز موجود ہیں جن میں سزا نہین ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کیسز میں صحیح تفتیش کیس میں ملزم کو قرار واقعی سزا دلوا سکتی ہے، ”اب بہت سے قوانین خواتین کے حفاظت کے لئے بنائے گئے ہیں۔”

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ساحل کے مطابق سال 2020 میں تین ہزار کے قریب بچوں اور بچیوں پر جنسی تشدد کیا گیا اور اوسظاً پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button