بلاگزجرائم

اپنی عزت بچا کر ملزم کو سبق سکھانے والی مردان کی اِس بیٹی کو سلام!

خالدہ نیاز

”خیبر پختونخوا میں ایک لڑکی نے ہراساں کرنے والے لڑکے کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا”، میری صبح کا آغاز آج اس خبر سے ہوا جس کو پڑھ کر میں کافی حیران ہو گئی کیونکہ ایسی خبریں دیکھنے کو بہت کم ملتی ہیں۔ عموماً تو میں نے ایسی خبریں زیادہ دیکھی ہیں کہ فلاں جگہ کسی مرد نے کسی خاتون کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا، گھریلو ناچاقی پر خاتون پر تشدد، کسی مرد نے بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا دیا، کسی لڑکے نے شادی کا جھانسہ دے کر اس کی زنندگی برباد کر دی یا کسی مرد نے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی یا کرنے کی کوشش کی۔

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ لڑکا لڑکی کو ہراساں کر رہا تھا اور یہ پہلی بار نہیں تھا کہ اس نے لڑکی کو چھیڑا، اس سے پہلے بھی وہ اس لڑکی کو چھیڑ چکا تھا، اب کی بار جب لڑکی کو چھیڑا گیا تو اس سے برداشت نہ ہوا اور گھر سے پستول نکال کر لے آئی اور لڑکے پر فائرنگ کر دی۔ لڑکی نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ لڑکے پر فائرنگ کے بعد مقامی تھانے پہنچ گئی اور وہاں پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنی عزت کی حفاظت کی خاطر ایسا اقدام اٹھایا ہے۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ لڑکی نے ایسا کیوں کیا؟ شاید اس لیے کہ اس کو پتہ تھا کہ پولیس میں ایف آئی آر کرنے کے بعد لڑکا کچھ دن حوالات میں گزارے گا اور پھر باہر نکل آئے گا اور اس کے بعد شاید اس کو زیادہ تنگ کرے گا کیونکہ اگر دیکھا جائے تو خواتین اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی روز کا معمول بن چکی ہے لیکن قانون ہونے کے باوجود صرف چند کیسز میں مجرمان کو سزا ملی ہے جبکہ زیادہ تر کیسز میں مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں یا سرے سے قانون کی گرفت میں ہی نہیں آتے۔

یہاں دوسری طرف بھی اشارہ کرنا چاہوں گی کہ اس لڑکی نے اپنے دفاع میں ایسا کیا ہے لیکن ہمارا معاشرہ اب بھی اسی لڑکی کو قصور وار ٹھہرائے گا کہ بھائی لڑکی خراب ہو گی تب ہی یہاں تک نوبت پہنچی ورنہ اس طرح تو کوئی نہیں کرتا، شاید ان کے آپس میں تعلقات ہوں اور کسی بات پہ جھگڑا ہوا ہو، بھائی ضروری نہیں ہے کہ تعلقات ہوں، اس نے اپنے دفاع میں ایسا اقدام اٹھایا ہے اور عزت کی خاطر اس نے ایسا کیا ہے تو بالکل ٹھیک کیا ہے۔

اسی خبر کے ساتھ میں نے ایک اور خبر بھی دیکھی کہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے ایک معلم نے راولپنڈی میں اپنی طالبہ کو محض اس وجہ سے تیزدھار آلے سے وار کر کے قتل کر دیا کہ بچی نے والدین سے شکایت کی تھی کہ معلم اس کے ساتھ غیراخلاقی حرکات کرتا ہے، شکایت کے بعد والدین نے بچی کو پڑھنے سے روک دیا تھا جس کے بعد معلم نے ٹیوشن سنٹر میں بچی کو قتل کر دیا، پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے جس نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔

دو مختلف واقعات ہیں لیکن ان کا لب لباب ایک ہی ہے: لڑکیوں اور بچیوں کے ساتھ چھیڑخانی، ہم کس جانب بڑھ رہے ہیں اور اس کا خاتمہ کب اور کیسے ممکن ہو گا؟ کیا اب بھی ہمیں ہراسانی پر خاموش رہنا چاہیے یا نہیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے؟ مجھے لگتا ہے کہ مزید ایسے واقعات پر خاموش نہیں رہا جا سکتا کیونکہ کب تک خاموش رہیں گے اور ہمارے خاموش رہنے سے یہ واقعات کم ہونے والے بھی نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ان میں زیادتی آ رہی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو ایسے واقعات عرصہ دراز سے ہمارے معاشرے میں ہوتے آ رہے ہیں لیکن پرانے وقتوں میں اس جانب کسی کی توجہ نہ تھی اور اگر کوئی شکایت بھی کرتا تو اس کو دبا دیا جاتا کہ خاموش ہو جاؤ، منہ پہ ہاتھ رکھو اس بارے میں کسی کو مت بتانا لیکن اب دنیا بہت آگے جا چکی ہے اور لوگ اپنے حقوق سے باخبر ہو چکے ہیں اور کھل کر والدین سے اس حوالے سے بات بھی کرتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قانون پر عمل درآمد کے ساتھ نوجوانوں کی کردار سازی پر بھی کام کریں کہ وہ اس جانب جانے سے گریز کریں اور اپنی ماں بہنوں کی طرح معاشرے کی ہر خاتون کی عزت کریں۔

آخر میں اس جرات مند حوا کی بیٹی کو سلام جس نے اپنی عزت بھی بچا لی اور ہراساں کرنے والے کو سبق بھی سکھا دیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ معاملہ بھی صلح پر ہی ختم ہو گا کیونکہ ایسے معاملات میں اکثر لوگ آخر میں صلح ہی کر جاتے ہیں۔ (یہ سطور لکھے ہی تھے جب مردان سے خبر آئی کہ دونوں خاندانوں کے درمیان صلح ہو چکی ہے)۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button