باچا خان یونیورسٹی کے نئے کیمپس پر مسلح افراد کا حملہ, سیکیورٹی گارڈ زخمی
محمد باسط خان
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے سیکورٹی گارڈ پر کیمپس کے اندر مبینہ پانچ مسلح افراد کا حملہ، مسلح افراد نے اسلحے کے نوک پر سیکیورٹی گارڈ کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا اور بعد میں مسلح افراد رفو چکر ہو گئے، واقع کو 16 دن گزر گئے لیکن تحال کوئی ملزم گرفتار نہ ہو سکا، یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے واقعہ کو چھپایا گیا لیکن بالآخر یونیورسٹی سیکیورٹی گارڈ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھانڈا پھوڑ ڈالا۔
ہفتے کے روز باچا خان یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈ سلیم خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے نئے کیمپس میں اکیلا ڈیوٹی پر مامور کیا تھا اور مجھ سے میرا اسلحہ بھی ضبط کر لیا گیا تھا کیونکہ کہ یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر نے مجھے اسلحہ رکھنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ وائس چانسلر کی جانب سے آپ کے لئے یہی ہدایات ہیں کہ اپ دوران ڈیوٹی اسلحہ ساتھ میں نہیں رکھ سکتے، میں چار دن سے بغیر اسلحہ لئے کیمپس کے سیکیورٹی پر مامور تھا۔
اچانک 27 اگست بروز جمعہ یونیورسٹی کیمپس کی دیوار کے اوپر ایک نامعلوم شخص نمودار ہوا جو یونیورسٹی کے اردگرد خار دار تار کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا، جب میں نے منع کرنے کی کوشش کی تو پیچھے کی طرف سے چار نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کر کے مجھے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ زیادہ مارنے کے باعث میں بے ہوش گیا تھا۔
واقعہ کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے میرا حال تک نہیں پوچھا، بعدازاں جب میں یونیورسٹی وائس چانسلر سے ملنے انکے دفتر گیا تو چیف سیکیورٹی آفیسر نے مجھے وہاں جانے نہیں دیا اور میں مایوس ہو کر واپس چلا آیا۔ انہوں نے اعلی حکام سے انصاف اور شفاف انکوائری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب باچا خان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سیکورٹی گارڈ سلیم کی جانب سے عائد تمام الزامات کو من گھڑت اور جھوٹ قرار دیا ہے۔
ترجمان یونیورسٹی گل حکیم کے مطابق چوکیدار سلیم نے کسی کے ایماء پر یونیورسٹی کے خلاف سازش کا حصہ بننے کی کوشش ہے جس کی مکمل تحقیق کی جائے گی اور اصل حقائق اور مقاصد کو جلد سامنے لایاجائے گا، جس دن سیکیورٹی گارڈ پر یونیورسٹی کے زیرتعمیر نئے کیمپس میں مبینہ تشدد کا واقعہ پیش آیا ہے اس دن سیکیورٹی انچارج اور دیگر اہلکاروں نے چوکیدار سلیم کو فوری سرکاری ایمبولینس میں چارسدہ ہسپتال پہنچایا جہاں مختلف میڈیکل چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے اسے صحت مند قرار دیا لیکن اس کے باوجود سی ایس او کی ہدایت پر انہیں پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال سرکاری ایمبولینس میں منتقل کیا گیا تاکہ مزید میڈیکل چیک اپ ہو سکے۔ وہاں سے بھی ڈاکٹروں نے اسے تندرست قرار دیا۔ واپسی پر انہیں گھر پہنچایا گیا، اور انہیں کچھ دن آرام کرنے کا کہا گیا۔
اس دوران ادویات سمیت علاج معالجے کے تمام اخراجات چیف سیکیورٹی آفیسر نے ادا کیے تھے اور مبینہ تشدد کے واقعہ کا پولیس نے مقدمہ بھی درج کیا ہے لیکن اس کے باوجود پریس کانفرنس کرنا اور یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا کسی سازش سے کم نہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ مذکورہ شخص نے کچھ دن قبل اپنے سپروائزر سے بدسلوکی کی جس پر انہیں نئے کیمپس میں سزا کے طور پر تعینات کیا گیا اور اس سے اسلحہ بھی لیا گیا تاکہ یہ شخص اپنے کسی ساتھی کو جانی نقصان نہ پہنچا سکے جس پر اس شخص نے ایسا کچھ کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے دوبارہ یونیورسٹی میں تعینات کیا جائے۔
وائس چانسلر میروٹیوریس پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد نے گارڈ کے بے جاہ پریس کانفرنس کرنے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یونیورسٹی کے متعلقہ شعبے کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ یونیورسٹی کی سطح پر تشدد کے واقعہ کی چھان بین کریں اور اصل حقائق سامنے لائے جائیں۔
خیال رہے کہ واقعہ کی ابتدائی رپورٹ 27 اگست تاریخ کو تھانہ نستہ میں متاثرہ سیکیورٹی گارڈ کی مدعیت میں پانچ نامعلوم مسلح ملزمان کیخلاف درج کی گئی ہے، لیکن واقعہ کو 16 دن گزر گئے اور اب تک کسی ملزم کی گرفتار عمل میں نہیں لائی گئی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تفتیش جا رہی ہے اور جلد ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔