خیبر پختونخواکورونا وائرس

وزیرستان کی صدیقہ کو جب شوہر کی تیسری شادی کا علم ہوا تو عدالت پہنچ گئی

بشری محسود،محمد طیب، انیس ٹکر

صدیقہ (فرضی نام) کی 4 سال کا انتظار کا بھرم اس وقت ٹوٹا جب ان کو معلوم ہوا کہ بیرون ملک میں مقیم ان کے شوہر نے دوسری کیا تسیری شادی بھی کی ہوئی ہے اور چپ چپ کر باقاعدہ ہر سال پاکستان بھی آتا ہے۔
جنوبی وزیرستان وچہ خوڑ کی صدیقہ کا شوہر دبئ میں کام کاج کرتے تھے اور ان کو ہر مہینے خرچہ بھیج دیتے تھے لیکن ایک دن اچانک خرچہ ملنا بند ہوا، پھر سسرالیوں نے کہا انہوں نے دوسری شادی کی ہے۔
صدیقہ نے کہا کہ 4 سال تک شوہر نے بالکل رابطہ نہیں کیا اور بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے کسی دوسرے شہر میں تیسری شادی بھی کی ہے اور دوسری اور تیسری بیوی سے ملنے ہر سال پاکستان بھی آتے ہیں۔
‘ گھر کا خرچہ تو ویسے بھی شوہر نہیں دیتے تھے اس لئے میں میکے آگئ اور شوہر سے خلع لینے کے لئے عدالت میں کیس جمع کردیا۔ دو سال صرف تاریخ پر تاریخ بدلتا رہا، جب فیصلے کا وقت آگیا تو لاک ڈاون کی وجہ سے سب کچھ بند ہوگیا جسمیں عدالتیں بھی بند ہوگئیں جسکی سے میری پریشانی مزید بڑھ گئی’ صدیقہ نے کہا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وکیل کو فیس دے دی تھی لیکن کیس کے لٹکنے کی وجہ سے انہوں نے مزید فیسوں کا مطالبے شروع کردئے۔ اب چند مہینے پہلے حالات دوبارہ تھوڑے نارمل ہوگئے اور عدالتیں کھل گئی تو صدیقہ کے کیس کا فیصلہ بھی کردیا گیا اور انکو آخرکار شوہر سے خلع مل گئی۔
پشاور ہائیکورٹ میں اس وقت 42ہزار 88کیسز زیر التواء کے شکار ہیں جبکہ ماتحت ضلعی عدالتوں میں زیر التواء کیسز کی تعداد 2لاکھ 19ہزار 700ہوگئی ہے جن میں کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے زیرالتوا مقدمات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پورے ملک میں کورونا وائرس نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ بہت سارے ادارے بھی متاثر ہو رہے ہیں جسمیں عدالتی نظام بھی شامل ہے.
مردان بار میں کام کرنے والی ایڈوکیٹ ثمن جاوید کا کہنا ہے کہ ایک طرف عدالتی نظام بہت سست ہے تو دوسری جانب لاک ڈاون کی وجہ سے مزید سست پڑ گیا ہے. ثمن جاوید نے کہا کہ عدالتی نظام میں انصاف کا حصول بہت سست ہے سالوں سال ایک کیس چلتا ہے جسکی وجہ سے وقت اور پیسے دونوں کا بہت ضیاع ہوتا ہے اور اب لاک ڈاون لگ گیا تو یہ عدالتی نظام بہت متاثر ہوگیا اور یہ انصاف کی حصول کا سلسلہ مزید سست پڑ گیا۔.
ثمن جاوید کہنا ہے کہ ایک شخص خصوصا ایک عورت جب عدالت کا دروازہ کھٹکٹاتی ہے تو انہیں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ معاشرے کے اقدار ایسے بنے ہیں جسمیں ایک عورت زیادہ مشکلات سے دوچار ہوتی ہے۔
ثمن جاوید نے کہا کہ ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے کہ اگر خدانجواستہ لاک ڈاون لگ بھی جاتا ہے تو یہ عدالتی نظام نہ رکھے اور انصاف کا یہ سلسلہ چلتا رہے۔

پشاور کے کورٹس میں پریکٹس کرنے والی پلوشہ کہتی ہیں کہ حالیہ لاک ڈاؤن میں عدالتیں بند ہوجانے سے وکلا برادری پر بھی بوجھ پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا ‘آج کے دن میں خود چار مختلف عدالتوں میں مختلف کیسز کے سلسلے میں پیش ہوئی’
اب ایک دن میں چار اور پانچ کیسز کے لئے تیاری کرنا آسان تو نہیں ہے، ہر کیس کو سٹڈی کرنا پڑتا ہے، دلائل اکھٹے کرنے پڑتے ہیں مخالف وکیل کو جوابات دینے ہوتے ہیں۔ پلوشہ نے بتایا اور مزید کہا کہ وکلاء پر مقدمات کا بوجھ لاک ڈاؤن کے بعد پڑا ہے۔
کورونا وبا کے دوران عدالتوں میں کیسز میں اضافے کی وجہ سے وکلاء ذہنی دباء کے شکار ہوئے ہیں اس حوالے سرکاری وکلاء کے ایک تنظیم کا ترجمان ذوالفقار ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ کورونا وبا سے پہلے سب عدالتوں میں حالات معمول کے مطابق تھے لیکن جیسے ہی کورونا لاک ڈاون لگ گیا تو اس عدالتوں میں سارا نظام درھم برھم ہوگیا اور عدالتوں میں کیسز کے انبار لگ گئے جس کی وجہ سے وکلاء کی کیسز کی تیاری بھی متاثر ہوئی۔
ذوالفقار ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ کورونا لاک ڈاون سے پہلے حالات نارمل تھے ماڈل کورٹس کی وجہ سے پرانے زیر التواء کیسز فیصلہ ہورہے تھے لیکن لاک ڈاون کے دورا ن عدالتوں میں چھٹیاں ہونے سے سول اور فوجداری کے بہت سے مقدمات مزید التواء کے شکار ہو گئے کیونکہ لاک ڈاون کے دوران عدالتوں مذکورہ مقدمات کے حوالے کوئی بھی پیش رفت نہ ہو سکی اور نہ اس دوران مذکورہ مقدمات کی سماعت ہو سکی ۔ جس کی وجہ لاک ڈاون کے بعد نئے کیسز آنے سے عدالتوں پر مزید بوجھ بڑھ گیا۔


دوسری جانب ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے سنیئر وکیل سلیم شاہ ہوتی نے اس بات کو رد کردیا ہے کہ زیر التواء کیسز نے وکلاء کی تیاریوں پر اثر ڈالا ہے۔
انہوں نے کہ کہ زیر التواء کیسز کی سب سے بڑی وجہ ہائی کورٹ اور لوئر کورٹس مین ججز کی کمی ہے ۔ سلیم شاہ ہوتی کا مزید کہناہے کہ لاک ڈاون اور ہڑتالوں کی وجہ سے وہ مزید چھ سات سال پیچھے چلے گئے جس کی وجہ لوگوں میں غیر یقینی صورتحال پید اہو گئی ہے ۔
اس وقت خیبر پختونخوا کے ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس میں 122ججز کی کمی ہے جس کے لیے باقاعدہ طور پر صوبائی حکومت کو کہا گیا ہے ،وکلاء کا کہنا ہے کہ اگر عدالتوں میں ججز کی کمی پوری ہوگئی تو اس سے زیر التواء کیسز کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
پشاور کی غنیمت بی بی بھی ایک کیس کے سلسلے میں پچھلے دو سال سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں اور صدیقہ کی طرح لاک ڈاؤن نے ان کے کیس کو مزید التوا میں ڈال دیا ہے۔
‘دو سال پہلے مقامی عدالت میں ایک فیملی کیس جمع کیا تھا جو کافی تاخیر کی وجہ سے آخری مراحل تک پہنچ گیا تو لاک ڈاون لگ گیا اور انکا کیس وہی رہ گیا’ غنیمت بی بی بہت پریشان ہے اور سوچوں میں گھم ہیں کیونکہ انہوں نے ایسا سنا ہے کہ لاک ڈاون دوبارہ لگنے والا ہے۔
‘جب لاک ڈاون ختم ہوگیا اور عدالتی کام دوبارہ شروع ھوگیا تو میرا کیس بھی چل پڑا اب دوبارہ فیصلے کا وقت قریب آگیا تو اب لوگوں سے سننے میں آیا ہیں کہ دوبارہ لاک ڈاون لگنے والا ہے۔ خدانخواستہ لاک ڈاون لگ گیا تو انکا کیس کی سماعت پھر ملتوی ہوجائے گی’
انہوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ کوئی ایسا نظام بنائے جس سے عدالتی نظام چلتا رہے۔
پورے ملک میں کورونا وائرس نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ بہت سارے اداریں بھی متاثر ہو رہے ہیں جسمیں عدالتی نظام بھی شامل ہے.
مردان بار میں کام کرنے والی ایڈوکیٹ ثمن جاوید کا کہنا ہے کہ ایک طرف عدالتی نظام بہت سست ہے تو دوسری جانب لاک ڈاون کی وجہ سے مزید سست پڑ گیا ہے. ثمن جاوید نے کہا کہ عدالتی نظام میں انصاف کا حصول بہت سست ہے سالوں سال ایک کیس چلتا ہے جسکی وجہ سے وقت اور پیسے دونوں کا بہت ضیاع ہوتا ہے اور اب لاک ڈاون لگ گیا تو یہ عدالتی بہت متاثر ہوگیا اور یہ انصاف کی حصول کا سلسلہ مزید سست پڑ گیا۔.
ثمن جاوید کہنا ہے کہ ایک شخص خصوصا ایک عورت جب عدالت کا دروازہ کھٹکٹاتی ہے تو انہیں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہ معاشرے کے اقدار ایسے بنے ہیں جسمیں ایک عورت زیادہ مشکلات سے دوچار ہوتی ہے۔.
بمن جاوید نے کہا کہ ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے کہ اگر خدانجواستہ لاک ڈاون لگ بھی جاتا ہے تو یہ عدالتی نظام نہ رکھے اور انصاف کا یہ سلسلہ چلتا رہے۔.
پشاور کے کورٹس میں پلوشہ نامے ایک خاتون وکیل اپنے ساتھی وکیل کے ساتھ عدالتوں میں زیر التوا ء کیسز میں اضافے اور وکلاء پر بڑھتے ہوئے بوجھ کے بارے میں بتاتی ہیں کہ وہ ایک ہی دن چار مختلف عدالتوں میں مختلف کیسز میں پیش ہوئی ۔ کورونا کی پہلی لہر میں لاک ڈاون کی وجہ سے عدالتوں میں زیر التواء کیسز میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے نہ صرف عدالتوں پر بلکہ وکلاء پر بھی بوجھ بڑھ گیا اور پرانے زیر التواء کیسز کے ساتھ نئے کیسز فیصلہ کرنا نہ صرف وکلاء کے لیے بلکہ عدالتوں کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔


کورونا وبا کے دوران عدالتوں میں کیسز میں اضافے کی وجہ سے وکلاء ذہنی دباء کے شکار ہوئے ہیں اس حوالے سرکاری وکلاء کے ایک تنظیم کا ترجمان ذوالفقار ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ کورونا وبا سے پہلے سب عدالتوں میں حالات معمول کے مطابق تھے لیکن جیسے ہی کورونا لاک ڈاون لگ گیا تو اس عدالتوں میں سارا نظام درھم برھم ہوگیا اور عدالتوں میں کیسز کے انبار لگ گئے جس کی وجہ سے وکلاء کی کیسز کی تیاری بھی متاثر ہوئی ذوالفقار ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ کورونا لاک ڈاون سے پہلے حالات نارمل تھے ماڈل کورٹس کی وجہ سے پرانے زیر التواء کیسز فیصلہ ہورہے تھے لیکن لاک ڈاون کے دورا ن عدالتوں میں چھٹیاں ہونے سے سول اور فوجداری کے بہت سے مقدمات مزید التواء کے شکار ہو گئے کیونکہ لاک ڈاون کے دوران عدالتوں مذکورہ مقدمات کے حوالے کوئی بھی پیش رفت نہ ہو سکی اور نہ اس دوران مذکورہ مقدمات کی سماعت ہو سکی ۔ جس کی وجہ لاک ڈاون کے بعد نئے کیسز آنے سے عدالتوں پر مزید بوجھ بڑھ گیا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button