کوہاٹ یونیورسٹی نے حکومتی احکامات کے برعکس قبائلی طلباء کو ہاسٹلز سے جانے پر کیوں مجبور کیا؟
سٹیزن جرنلسٹ عابد اقبال، نواز اورکزئی
‘دوسری بار تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمارا ہاسٹل بھی بند کردیا ہے لیکن میں پریشان ہوں کہ اب میں آن لائن کلاسز کیسے لوں گا کیونکہ ہمارے علاقے میں تو انٹرنیٹ ہے ہی نہیں’
یہ کہنا ہے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے فدا کا جو کوہاٹ یونیورسٹی میں ایم بی اے کا طالبعلم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تعلیمی اداروں کو بند کرتے وقت کہا تھا کہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا ان علاقوں کے طلباء کو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دی جائے گی لیکن ان کا ہاسٹل تو بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے اپنے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہے کیونکہ پہلے لاک ڈاون کی وجہ سے انکا کافی وقت ضائع ہوچکا ہے۔
یاد رہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے بند کیا ہے تاہم اس دوران آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن قبائلی اضلاع کے طلباء کا کہنا ہے انکو آن لائن کلاسز لینے میں سخت دشواری کا سامنا ہے کیونکہ انکے علاقوں میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا۔
اس کے بارے میں کوہاٹ یونیورسٹی کے پی آر او ڈاکٹر ذیشان بنگش کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی ہاسٹل کی بندش کا فیصلہ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ آف ال یونیورسٹی نے کیا ہے جس کے تحت 26 دسمبر تک یونیورسٹی اور ہاسٹلز بند رہیں گے اور طلباء ان لائن کلاسوں کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھے گے۔ ڈاکٹر ذیشان بنگش کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے طلباء کی آسانی کے لیے اپنے صوبے کے ہر ضلع میں دفاتر کھولے ہیں جہاں سے سٹوڈنٹس ہر ہفتے ان لائن کلاسوں کا ریکارڈ لے سکتے ہیں۔
اگرچہ کوہاٹ یونیورسٹی نے ہاسٹلز کو بند کردیا ہے تاہم کچھ یونیورسٹیز نے طلباء کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے ہاسٹلز کھول رکھے ہیں۔ ان یونیورسٹیز میں پشاور یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ترجمان پروفیسر نعمان کا کہنا ہے یونیورسٹی انتظامیہ نے ایسے تمام طلباء کے لیے ہاسٹلز کھول رکھے ہیں جن کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاسٹلز میں ان طلباء کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اور وہ آسانی سے آن لائن کلاسز لے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے طلباء جن کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے وہ یونیورسٹی پرووسٹ میں اپنی درخواست دے سکتے ہیں کہ انکے علاقے میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا تو انکو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دی جائے جس کے بعد پرووسٹ اپنے طور پر چھان بین کرتا ہے کہ آیا واقعی درخواست دینے والے طالبعلم کے علاقے میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا تو اسکے بعد ایسے طالبعلم کو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
آن لائن کلاسز نے قبائلی اضلاع کے 20000 سے زائد طلباء و طالبات کو فائدے کی بجائے نقصان سے دوچار کیا ہے کیونکہ ضم اضلاع کے 90 فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے اور وہاں پی ٹی سی ایل کی سہولت سے حاصل کردہ انٹرنیٹ سروسز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
فدا تو پریشان ہے لیکن اپر اورکزئی سے تعلق رکھنے والے عبد الرحمن نے اس بار آن لائن کلاسز لینے کے لیے ایک دوست کے ہاں رہائش اختیار کی ہے۔ عبد الرحمن فاٹا یونیورسٹی میں بی ایس تھرڈ سمسٹر سوشیالوجی کا طالبعلم ہے۔
عبد الرحمن کا کہنا ہے کہ پہلے لاک ڈاون کے دوران ان کا کافی وقت ضائع ہوگیا کیونکہ انکے علاقے میں سرے سے موبائل نیٹ ورک کام ہی نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی حکومت نے دوبارہ یونیورسٹیز کو بند کیا تو انہوں نے لوئر اورکزئی میں اپنے ایک دوست کے ہاں ڈھیرڈال دیئے ہیں تاکہ آن لائن کلاسز لے سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوئر اورکزئی میں موبائل نیٹ ورک موجود ہے لیکن پھر بھی نیٹ بہت سلو کام کرتا ہے اور یہاں پر ایک پہاڑ کی چوٹی ہے وہاں پریہ جاتے ہیں وہاں پر بھی اس طرح وائی فائی کام نہیں کرتا جسطرح دوسرے علاقوں میں کرتا ہے لیکن پھر بھی تھوڑا بہت گزارہ ہوتا ہے جس سے وہ آن لائن کلاسز لیتے ہیں۔
عبد الرحمن کا کہنا ہے کہ انکو ایک اور مسئلہ بجلی کا بھی ہے کہ جو چوبیس گھنٹوں میں تین چار گھنٹے ہوتی ہے جس سے بمشکل سے وہ موبائل اور لیپ ٹاپ چارج کرلیتے ہیں اور پھر کلاسز لے لیتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چارج نہ ہونے کی وجہ سے انکی کلاس ادھوری رہ جاتی ہے۔