کرونا وائرس نے چلغوزے کو سستا کر دیا
سٹیزن جرنلسٹ عابد اقبال
‘بخت محمد اور گل جنان چلغوزہ صاف کرنے میں مصروف ہیں، دوسری طرف کچھ بندے چلغوزہ خرید رہے ہیں لیکن چلغوزے کے کاروبار سے منسلک افراد کچھ خاص خوش دکھائی نہیں دے رہے’ یہ منظر آزاد منڈی بنوں کا ہے۔ ایک بندہ جس کا نام علی خان ہے اور سرے درگے سے اس کا تعلق ہے کہتا ہے کہ کہ کرونا وائرس کے دوران لاک ڈاون کی وجہ سے انکے چلعوزے کے کاروبار کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔’ صرف مجھے ہی نہیں چلغوزہ کاروبار سے وابستہ سب کاروباری لوگوں کو بھت نقصان پہنچا’
آزاد منڈی میں موجود نوراللہ جس کا شوال میں چلغوزے کا اپنا غار ہے کہتا ہے کہ کہ کرونا وائرس کے دوران لاک ڈاون کی وجہ سے سے ہم نے اپنا مال وقت پر منڈی تک نہیں پہنچایا جس کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ نقصان پہنچا کیونکہ منڈی میں چلغوزہ کی قیمت بہت زیادہ کم ہوگئی تھی جن تاجروں نے وقت پر منڈی کو اپنا مال پہنچایا تھا ان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا ۔نوراللہ کا یہ بھی کہنا ہے ان کو شوال تک انے جانے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے انکو آسانی سے شوال جانے کی اجازت نہیں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے۔
اس بارے میں جب ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے محرر شفیع اللہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی چلغوزے کا فصل پک جاتاہے تو ہم وہ لوگ جن کا شوال میں چلغوزے کے اپنے غار ہے ان کی باقاعدہ انٹری کر کے ان کو شوال جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکی پوری کوشش ہے کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرسکیں۔
کامران جس کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے کہتا ہے کہ پچھلے سال چلغوزہ کی قیمت بہت زیادہ تھی جو کہ 8000 روپے ایک کلو تھی اور ہمارے لیے مشکل تھا کہ اپنے لیے چلغوزہ خرید لے لیکن اس سال چلغوزہ کی قیمت بہت کم ہے جو کہ 2000 روپے کلو ہے جو ہمارے لیے خوشی کی بات ہے۔ کامران کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر غلام خان بارڈر مکمل طور پر کھول دیا جائے اور افعانستان کی چلغوزہ وزیرستان کے منڈیوں میں آجائے تو امید ہے کہ چلغوزہ کی قیمت اور بھی کم ہو جائے گی۔
ما لالی نامی شخص کا پاکستان مارکیٹ میں خشک میوے کی دوکان ہے کہتا ہے کہ دو تین سال سے انکے پاس چلغوزہ دستیاب نہیں تھا کیونکہ چلغوزہ کی قیمت بہت زیادہ تھی اور خریدار بہت کم تھے لیکن اس سال انکے پاس چلغوزہ دستیاب ہے قیمت کم ہے لوگ شوق سے لینے اتے ہیں۔