ماحولیات

موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے سبب پشاور بھی متاثر

خیبر پختونخوا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی "کلائمیٹ ہیلتھ اینڈ ولنربلٹی اسیسمنٹ" کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے لحاظ سے پشاور سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قرار پایا ہے۔

کیف آفریدی

پشاور میں 42 فیصد سے زائد گھرانوں کا انحصار پینے کے پانی کے لیے نل کے پانی پر ہے۔ خیبر پختونخوا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی "کلائمیٹ ہیلتھ اینڈ ولنربلٹی اسیسمنٹ” کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے لحاظ سے پشاور سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قرار پایا ہے۔

پشاور میں مناسب سیوریج سسٹم موجود نہیں ہے۔ گندہ پانی بغیر کسی صفائی کے نالوں اور دریاؤں میں چھوڑا جاتا ہے۔ یہ تاریخی شہر جو صوبائی دارالحکومت بھی ہے 2024 میں دست، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کے سب سے زیادہ کیسز کے ساتھ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ رہا، جو صحت اور موسمیاتی تبدیلی کے باہمی تعلق پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔

تکلیف دہ یادیں 

زاہد آفریدی جنکا تعلق ضلع خیبر سے ہے وہ بدامنی کے دور میں پشاور منتقل ہوئے تھے اور پچھلے 18 سالوں سے پشاور میں رہ رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ وہ تو یہاں 2 سال بعد کبھی 5 سال بعد گھر بدلتے ہیں کیونکہ کرایہ کے گھر کا دورانیہ عموما کم رہتا ہے۔ زاہد کے مطابق وہ شہر کے مختلف علاقوں میں رہ چکے ہیں۔ ابھی کسٹم چوک کے ساتھ رہتا ہے۔ تنگ گلیوں اور سیوریج کا نظام صیح نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں اکثر بارش ہوتے ہی پانی جمع رہتا ہے جو نہ صرف گندگی پھیلاتا ہے بلکہ اس سے طرح طرح کے بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔ 42 سالہ زاہد آفریدی نے بتایا کہ ضلع خیبر میں جب وہ مقیم تھے تو اتنی صحت کے مسائل نہیں تھے جتنے یہاں پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیوریج کا صیح نظام نہ ہونا اور آؒلودہ پانی کے استعمال سے انکے بچے بھی اکثر بیمار رہتے ہیں۔ انکے مطابق پشاور میں رہنا انکے لیے وبال جنگ بن گیا ہے۔

بیماریوں میں اضافہ

پشاور میں پانی کی آلودگی سے بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ 2024 اور 2025 میں بھی پشاور میں اسہال اور ٹائیفائیڈ کے سب سے زیادہ مشتبہ کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

مولوی امیر شاہ میموریل اسپتال کے مطابق بچوں میں دست، ڈیسنٹری، ٹائیفائیڈ اور پیٹ کے کیڑوں کے ہزاروں کیسز رپورٹ ہوئے۔ صرف 2024 میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 68,456 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

ڈاکٹر سفیان خلیل کا کہنا ہے: "اب تو سردیوں میں بھی ڈینگی کے کیسز آ رہے ہیں، جو پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔”

دوسری جانب پشاور میں میڈیکل آفیسرڈاکٹر فیاض المولا نے ٹی این این کو بتایا کہ آلودہ پانی استعمال کرنے سے سب سے زیادہ کم سن بچے اور بڑے اسہال، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کا شکار ہورہے ہیں۔ آلودہ پانی سے نہانے کے باعث مختلف جلدی بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں، آلودہ پانی میں مختلف بیکٹریا، وائرس اور کیمیکلز موجود ہوتے ہیں جس سے ڈرمٹائٹس ، فنگل انفیکشنز ، خارش یا اسکیبیز، بیکٹیریل انفیکشنز ایمپیٹیگو ، فولیکولائٹس اور ایگزیما لاحق ہوتے ہیں۔

فیاض المولا نے مزید بتایا کہ آلودہ پانی سے آنکھوں میں مختلف قسم کے جراثیم داخل ہو جاتے ہیں جس سے آشوبِ چشم ، ٹریچوما، کارنیا کا زخم ، فنگس سے آنکھ کا انفیکشن ، آنکھ کی الرجی اور یووائٹس کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ماہر امراض جلد (اسکن) ڈاکٹر شمائل ضیا نے بتایا کہ آلودہ پانی سے جلد پر فنگل انفیکشن بہت زیادہ بڑھتا جا رہا ہے جسے ہم ٹینیا کورپریس کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بال توڑ یا فالیکولائٹس بھی بہت دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جو آلودہ پانی کے استعمال سے ہوتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی

جون کے آخر اور رواں ماہ میں غیر متوقع شدید بارشیں، جو موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہیں، پہلے سے دباؤ کا شکار شہری نظام کو مزید متاثر کر رہی ہیں۔ پشاور وادی، جو کبھی گندھارا تہذیب کا مرکز تھی، اب ناقص صفائی اور آلودہ پانی کے مسائل سے دوچار ہے۔

ریجنل میٹ آفس کے مطابق، اب بارشیں کم وقفے میں زیادہ شدت سے ہو رہی ہیں، جو شہری علاقوں میں فوری سیلاب کا سبب بنتی ہیں۔ اور بارشوں کا دورانیہ بھی تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

واٹر اینڈ سینیٹیشن کا بحران

پشاور کی آبادی 40 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور شہر کے پاس کوئی فعال سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود نہیں۔ شہر کا سارا گندہ پانی نالوں اور دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ پوش علاقوں میں بھی یہی حال ہے۔

پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر، شائیدہ محمد کے مطابق، شہر کے 140 مقامات سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں سے 45 فیصد پینے کے قابل نہیں پائے گئے۔

دو سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ (حیات آباد اور ورسک روڈ پر) صرف منصوبوں کی حد تک موجود ہیں۔ حیات آباد کی زمین کو بی آر ٹی مال بنانے کے لیے استعمال کر لیا گیا، اور ورسک روڈ والا منصوبہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔

ناکافی ہم آہنگی

وزیراعلیٰ کے مشیر برائے صحت احتشام علی کا کہنا ہے کہ، "ابھی تک صحت اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ محکموں کے درمیان مستقل رابطہ نہیں ہے۔ زیادہ تر رابطہ ضلعی انتظامیہ یا مقامی حکام کے ذریعے ہوتا ہے۔”

"کسی بھی وبا کے دوران صحت کا محکمہ سب سے پہلے میدان میں آتا ہے، بعد میں متاثرہ علاقوں کے پانی کی صفائی کے لیے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو مطلع کیا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق آلودہ پانی 80 فی صد بیماریوں کا باعث بنتا ہےجس میں ہیپاٹائٹس، آنتوں، معدہ و جگر، گردے کی بیماریوںسمیت کینسر جیسی جان لیوا بیماریاں بھی شامل ہیں، یہ تشویش ناک صورت حال ہنگامی اور بھرپور اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔

اس ضمن میں حکومت پاکستان نے پورے ملک کی طرح پھولوں کی شہر پشاور میں بھی واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے ہیں جس میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہوتا ہے۔ حکومت نے ہر مخصوص جگہ پر اس طرح کثیر تعداد میں واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کئے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم پلانٹس ایسے ہے جن سے لوگ استعفادہ حاصل کر رہے ہیں جبکہ بہت سارے نصب واٹر فلٹریشن پلانٹس کی عرصہ دراز سے صفائی نہیں ہوئی اور متعدد پلانٹ ایسے بھی ہیں جن کے فلٹر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب واٹر سپلائی کے پائپ بوسیدہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ سے پھٹ گئے ہیں اور ان میں بارش کی وجہ سے سیوریج لائن کا پانی داخل ہو رہا ہے۔

موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے نہ صرف انسان اور جانور متاثر ہو رہے ہیں بلکہ سبزیوں اور میوہ جات کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ جو کہ ایک سنگین مسلہ بن چکا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button