موسمیاتی بحران کا دہرا بوجھ: خیبر پختونخوا میں خواتین سب سے زیادہ متاثر

رانی عندلیب
"موسم میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس میں اب شدت بھی آ چکی ہے۔ گرمی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بعض اوقات سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے جیسے بوڑھے اور کمزور افراد کی زندگیاں اس شدید موسم کی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔”
یہ کہنا ہے زلیخا بی بی کا، جن کی عمر 75 سال ہے اور اس وقت لیڈی ریڈنگ اسپتال (ایل آر ایچ) کے میڈیکل بی وارڈ میں داخل ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ آج سے 60 سال پہلے پشاور شہر، اس کے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں کئی جگہوں پر بجلی نہیں تھی، لیکن گرمی قابل برداشت ہوتی تھی۔ پنکھے کے بغیر بھی وقت اچھا گزر جاتا تھا، بارشیں وقت پر ہو جاتی تھیں اور ہیٹ اسٹروک جیسا لفظ سننے کو نہیں ملتا تھا۔ اب تو پورا نظام زندگی ہی متاثر ہو گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2022 میں جینڈر کلائمیٹ چینج ایکشن پلان میں تسلیم کیا گیا کہ خواتین موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، خاص طور پر سیلابوں کے دوران اور اس کے بعد پھیلنے والی بیماریوں سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کی صحت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
مختلف میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے صوبائی محکمہ برائے آفات انتظامیہ (پی ڈی ایم اے) نے متوقع بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث چند اضلاع میں گلیشیئر جھیلوں کے اچانک پھٹنے (گلوفس) اور سیلاب کے خطرے کے حوالے سے الرٹ جاری کیا ہے۔ پی ڈی ایم اے نے مقامی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے احتیاطی اقدامات کرے، خطرے کے شکار کمیونیٹیز کو بروقت آگاہ کرے اور ہنگامی ردعمل کے لیے مکمل تیاریاں یقینی بنائے۔ موسمیاتی تبدیلی کو ان واقعات کے خطرات میں اضافے کا ایک اہم سبب قرار دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی سیما، جو اب پشاور میں مقیم ہیں، بتاتی ہیں کہ 2010 کے تباہ کن سیلاب نے ان کے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر خواتین نہ تیرنا جانتی ہیں اور نہ ہی درخت پر چڑھنے جیسی جسمانی مہارت رکھتی ہیں، کیونکہ ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوتی ہے جہاں عورتوں کو تعلیم و تربیت کے مواقع برابری کی سطح پر میسر نہیں ہوتے۔ جہاں خواتین کو زندگی بچانے والی بنیادی مہارتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ غیر مساوی رویوں کے باعث عورتوں اور لڑکیوں کو زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، خواتین کو بچاؤ کے لیے گھروں کی چھتوں پر پناہ لینا پڑی، جو بذاتِ خود ایک خطرناک عمل تھا۔ ایک طرف سیلاب کے باعث کمزور چھتیں کسی بھی وقت گر سکتی تھیں، اور دوسری طرف بزرگ خواتین و مرد حضرات کو اوپر لے جانا بھی تقریباً ناممکن کام تھا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی اور موسمیاتی تبدیلی پر رپورٹنگ کرنے والی ایوارڈ یافتہ، خالدہ نیاز کہتی ہیں کہ خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات کے اثرات سب سے زیادہ خواتین پر مرتب ہو رہے ہیں، خاص طور پر وہ خواتین جو دیہی اور کمزور معاشرتی طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو بچاؤ کی تربیت نہیں دی جاتی. نہ تیرنا سکھایا جاتا ہے، نہ ایمرجنسی میں فوری ردعمل کی مشق کروائی جاتی ہے۔ نتیجتاً، وہ قدرتی آفات جیسے سیلاب یا زلزلے کے وقت سب سے زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں۔
زلزلوں کے دوران پردے اور سماجی روایات کے باعث خواتین گھروں سے نکلنے میں تاخیر کرتی ہیں، جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ خالدہ نیاز کے مطابق، ایسے مواقع پر خواتین کی جان بچانے کی صلاحیت صرف انفرادی نہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی ڈھانچے سے مشروط ہے۔
آفات کے بعد جب نقل مکانی کی نوبت آتی ہے، تو تقریباً 70 فیصد متاثرین خواتین ہوتی ہیں، جنہیں صفائی، خوراک، پینے کے صاف پانی اور طبی سہولیات کی شدید کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ حاملہ خواتین اس دوران سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ہجرت، غیر صحت مند حالات، اور غذائی قلت حاملہ ماوں کو مزید خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
خالدہ نیاز کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کی منصوبہ بندی میں خواتین کے مخصوص مسائل کو نظرانداز کرنا ان کی جان و صحت کو مزید خطرے میں ڈال رہا ہے، اور اگر پالیسیوں میں صنفی حساسیت کو شامل نہ کیا گیا، تو خواتین ماحولیاتی بحرانوں کا سب سے بڑا نشانہ بنتی رہیں گی۔
اعداد و شمار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث بے گھر ہونے والے ہر پانچ افراد میں سے چار خواتین ہوتی ہیں، جبکہ شدید موسمی آفات خواتین کی تولیدی صحت پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں۔
اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے، تاہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے لحاظ سے دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں۔ کمزور معیشت، اور محدود وسائل کے باعث خواتین کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔ شدید گرمی، سیلاب، خشک سالی اور خوراک و پانی کی قلت جیسے مسائل دیہی علاقوں کی خواتین کی زندگیوں پر براہِ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔
موسمیاتی تغیر کا خواتین پر گہرا اثر پڑ رہا ہے، خاص طور پر وہ خواتین جو حاملہ، دودھ پلانے والی مائیں، معمر، یا پہلے سے کمزور جسمانی حالت میں ہوں۔ اس حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی غذائی ماہر، پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ خلیل ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ماہواری اور حمل کے دوران خواتین کو متوازن غذا کی سخت ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ غذائی قلت کی صورت میں خواتین خون کی کمی، ہارمونز سے منسلک تبدیلیوں، اور مدافعتی نظام کی کمزوری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ کیفیت نہ صرف حمل کو متاثر کرتی ہے بلکہ دورانِ زچگی پیچیدگیوں کا باعث بن کر جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر بشریٰ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پھلوں، سبزیوں، اور دیگر غذائی اجزاء کی دستیابی متاثر ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں دیہی اور نچلے طبقات کی خواتین، خصوصاً زلیخا بی بی جیسی معمر اور بیمار خواتین مزید خطرات کی زد میں آ جاتی ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ معمر خواتین اور بچے کمزور قوت مدافعت کے باعث بدلتے موسموں، آلودہ پانی، ناقص غذا اور بیماریوں کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ پشاور جیسے شہروں میں فضائی آلودگی میں اضافہ، تیز دھوپ، گرد و غبار، اور زہریلی گیسوں کی موجودگی نے سانس کی بیماریوں، دمے، الرجی اور جلدی مسائل کو عام کر دیا ہے، جن کا سب سے زیادہ شکار خواتین ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر بشریٰ کے مطابق، زلیخا بی بی جیسے افراد کے لیے یہ موسمی شدت صرف ایک وقتی پریشانی نہیں بلکہ زندگی کے لیے مسلسل خطرہ بن چکی ہے۔ خاص طور پر وہ بزرگ جو تنہا ہوں، مالی وسائل نہ رکھتے ہوں یا طبی امداد تک فوری رسائی نہ رکھتے ہوں، ان کے لیے شدید گرمی، ہیٹ اسٹروک، یا آلودہ ہوا میں سانس لینا تکلیف دہ اور جان لیوا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پالیسی ساز اداروں کو چاہیئے کہ خواتین، معمر افراد، اور بیمار طبقات کی مخصوص غذائی و صحت کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے موسمیاتی حکمت عملی تیار کریں، تاکہ ان کی بقا کو ممکن بنایا جا سکے۔
پی ڈی ایم اے خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ نے بتایا کہ صوبہ ہر سال مون سون کے دوران شدید بارشوں، گلیشیئر پگھلنے اور ممکنہ سیلاب کے خطرات سے دوچار رہتا ہے، اور یہ خطرات موسمیاتی تبدیلی کے باعث وقت کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر متوقع بارشیں، موسم کی شدت، اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اب معمول بنتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے قدرتی آفات کی نوعیت اور شدت میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر مون سون کنٹیجنسی پلان 2025 تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت صوبے کے 11 اضلاع کو ہائی رسک قرار دے کر وہاں فوری اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ان اقدامات میں دریا اور نہروں کے کنارے حفاظتی بندوں کی جانچ اور صفائی، اور شہری علاقوں میں نکاسیٔ آب کے نظام کی بہتری شامل ہے۔ پشاور میں خصوصی طور پر ڈی واٹرنگ یونٹ قائم کیا گیا ہے تاکہ بارش کے پانی کو فوری نکالا جا سکے۔
شہاب علی شاہ نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ضلعی انتظامیہ بھرپور کارروائی کر رہی ہے کیونکہ یہ موسمیاتی خطرات کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ ساتھ ہی ایندھن، خوراک، ادویات، اور دیگر امدادی اشیاء کا پیشگی بندوبست کر لیا گیا ہے تاکہ ہنگامی صورتِ حال میں بروقت امداد ممکن ہو۔انہوں نے بتایا کہ پی ڈی ایم اے کی ہیلپ لائن 1800 چوبیس گھنٹے فعال ہے تاکہ عوام کسی بھی ہنگامی صورت میں فوری طور پر رابطہ کر سکیں۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے شریف حسین کی قیادت میں یہ تمام اقدامات ایک جامع اور ماحولیاتی تغیر کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ ان کا مقصد صرف وقتی ردعمل نہیں بلکہ عوام، خصوصاً خواتین، بزرگوں اور دیہی علاقوں میں بسنے والے کمزور طبقات کو پہلے سے محفوظ بنانا ہے، جو موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اکمل خان، جو موسمیاتی تغیرات سینٹر کے سابق ڈائریکٹر رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں موسم ایک دوسرے سے جُڑ چکے ہیں اور ان میں توازن بگڑ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سردی کا دورانیہ کم جبکہ گرمی کا موسم طویل اور شدید ہوتا جا رہا ہے، اور آنے والے پانچ سے دس برسوں میں اس شدت میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بارشوں کا نظام بھی غیر متوازن ہو چکا ہے۔ جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے، بارش نہیں ہوتی، اور جب بارش کی ضرورت نہیں ہوتی، تب اچانک اور شدید بارشیں فصلوں کو برباد کر دیتی ہیں۔
ڈاکٹر اکمل خبردار کرتے ہیں کہ اگر یہی حالات جاری رہے تو ملک فوڈ سیکیورٹی کے سنگین بحران کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ غذائی قلت بڑھنے سے پورا معاشرہ متاثر ہوگا، لیکن ہمارے جیسے مردانہ غالب سماج میں خواتین اس کا سب سے دہرا اثر برداشت کریں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اکثر گھرانوں میں جب خوراک کی قلت ہوتی ہے تو خواتین پہلے اپنے بچوں اور شوہروں کا پیٹ بھرتی ہیں اور خود کم یا ناکافی غذا پر اکتفا کرتی ہیں، جس سے ان کی جسمانی کمزوری، خون کی کمی، اور بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ صورت حال خاص طور پر ان خواتین کے لیے خطرناک ہے جو حاملہ ہوتی ہیں یا اپنے بچوں کو دودھ پلا رہی ہوتی ہیں۔
دوسری جانب، پشاور یونیورسٹی کے انوائرمنٹل سائنس کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر آصف خان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو روکنے کے لیے فوری طور پر درختوں کی کٹائی بند کرنا اور شجرکاری کو فروغ دینا ہوگا، کیونکہ درخت نہ صرف آکسیجن فراہم کرتے ہیں بلکہ فضاء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے درجہ حرارت میں اضافے کو روکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے جنگلات ملک کے 50 فیصد کاربن کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ان کی بقا صرف اسی صورت ممکن ہے جب حکومتی اور عوامی سطح پر شعور اور اقدامات ساتھ ساتھ ہوں۔
ڈاکٹر آصف یہ بھی کہتے ہیں کہ قدرتی آفات جیسے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور خشک سالی سے نمٹنے کے لیے ہائی رسک علاقوں کی بروقت میپنگ ناگزیر ہے تاکہ مقامی انتظامیہ بروقت تیاری کر سکے۔ ساتھ ہی وہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی، عمارتوں کی سولرائزیشن، اور زیرو کاربن ایمیشن پالیسیوں پر عملدرآمد کو لازمی قرار دیتے ہیں تاکہ عالمی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مقامی سطح پر محدود کیا جا سکے۔
خالدہ نیاز جو موسمیاتی تبدیلی کے خواتین پر اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ خواتین، جو پہلے ہی محدود صحت سہولیات، تعلیم اور فیصلہ سازی کے مواقع کی کمی کا شکار ہیں، موسمیاتی آفات کے دوران مزید کمزور ہو جاتی ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب میں لاکھوں خواتین بے گھر ہوئیں اور ان کی صحت و تحفظ کے مسائل مزید پیچیدہ ہو گئے۔
ان چیلنجز اور مسائل کے باوجود، پاکستان میں خواتین کی قیادت میں ماحولیاتی تحفظ کی متعدد کوششیں بھی سامنے آئی ہیں، جنہیں پالیسی سطح پر مزید حمایت اور مضبوطی دینے کی ضرورت ہے تاکہ صنفی مساوات کے ساتھ ساتھ موسمیاتی انصاف کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔
خالدہ نیاز نے اس امر پر زور دیا کہ "موسمیاتی تبدیلی محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی و معاشی بحران ہے، جس کے بدترین اثرات کمزور طبقات، خاص طور پر خواتین، بزرگوں، بچوں اور دیہی کمیونٹیز پر پڑ رہے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ موسمیاتی پالیسی سازی میں صنفی حساسیت، صحت، خوراک اور مقامی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ترجیح دی جائے۔”