عوام کی آوازماحولیات

اپریل میں ہیٹ اسٹروک ایپی سوڈ کلائمیٹ چینج کی وارننگ ہے!

کیف آفریدی

اپریل میں پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں گرمی کی لہر عروج پر ہے؛ گرمی کی شدت سے شہری پریشان نظر آ رہے ہیں، جبکہ ہر سال موسم گرما کا دورانیہ زیادہ ہوتا جا رہا ہے، ایسے میں ہیٹ اسٹروک اور ہیٹ ویوو کا آنا اور ان کے ایپی سوڈ میں اضافہ خطرے کی گھنٹی نہیں تو اور کیا ہے۔ اپریل جو موسم گرما کا نقیب سمجھا جاتا تھا، اس میں موسم خوشگوار ہوتا تھا لیکن گزشتہ کئی سالوں سے اپریل میں بھی گرمی کی شددت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے خیبر پختونخوا میں 27 سے 30 اپریل کے دوران گرمی کی شدت میں نمایاں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، اور اس ضمن میں ایک خصوصی مراسلہ جاری کر کے تمام ضلعی انتظامیہ کو الرٹ کر دیا ہے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق ان دنوں کے دوران دن کے اوقات میں درجہ حرارت معمول سے 4 تا 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کا امکان ہے جس کے باعث ہیٹ اسٹروک، خشک موسمی حالات اور آبی ذخائر پر دباؤ جیسے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔

کلامئیٹ چینج: ہیٹ اسٹروک اور ہیٹ ویوو میں اضافہ

موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے سے ہیٹ اسٹروک میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہیٹ سٹروک سے انسان موت کے منہ میں بھی جا سکتا ہے۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے نہ صرف موسمیاتی تغیر ہوا ہے بلکہ اس سے براہ راست انسان بری طرح متاثر ہو رہا ہے، یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فیاض المولا کا جو پچھلے اکتیس سالوں سے مختلف ہسپتالوں میں میڈیکل آفیسرز رہ چکے ہیں اور ساتھ میں دلزاک روڈ پر کلینک بھی چلاتے ہیں۔

ڈاکٹر فیاض المولا نے ٹی این این کو بتایا کہ عام طور میں ہیٹ اسٹروک کو لوگ بہت نارمل لیتے ہیں لیکن یہ ایک اہم ایشو ہے کیونکہ گرمیوں میں یہ بڑھ جاتا ہے۔ گرمی کی شددت میں اضافہ، دھوپ میں کام کرنا یا جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے انسان ہیٹ سٹروک کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسکے علاوہ اس کی کچھ علامات میں سر درد، بخار، جسم کا درد، ڈائریا ہو جانا، آنکھوں کی سوجن، پیچس، ہیضہ اور چکراہٹ بھی شامل ہیں۔ اگر یہ علامات ظاہر ہو جائیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کر کے بروقت اپنا علاج کروائیں۔

ہیٹ اسٹروک اس وقت ہوتا ہے جب جسم کا درجہ حرارت بنیادی درجہ حرارت سے زیادہ ہو جائے۔ ہیٹ اسٹروک گرمی سے متعلق بیماری کی ایک شدید شکل ہے جو دماغ، دل، گردوں اور دیگر اعضاء کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو ہیٹ اسٹروک جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدلتے موسم اور خاص کر موسمیاتی تغیر کی وجہ سے بیماریوں کے دورانیے میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جیسا کہ گرمی کا دورانیہ بڑھنے سے ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی جا رہی ہیں: "پچھلے اکتیس سالوں سے میرا تجربہ رہا ہے؛ پہلے بیماریاں اتنی نہیں تھیں جتنی آج کل زیادہ ہوئی ہیں، چالیس سال سے کم عمر کے لوگوں میں بلڈ پریشر، دل کی بیماری یا بصارت کا کم ہونا وغیرہ جیسی شکایات نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن آج نوجوانوں میں بھی اس طرح کی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں۔”

ہیٹ اسڑوک سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر فیاض المولا  کے مطابق اگر پسینہ آئے، یا سر درد، اور یا تھکن محسوس ہوتی ہے، دل تیزی سے دھڑکنے لگے اور پٹھوں میں کھچاؤ آ جائے اور جلد کی رنگت پیلی ہو جائے تو فوری طور پر معالج سے رجوع کریں۔

اکثر بزرگ افراد ایسی صورتحال میں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ خواتین بھی نیم بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لائی جاتی ہیں۔ لہذا اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کریں، گھر پر رہیں اور بغیر کسی ضرورت کے گھر سے نہ نکلیں؛ ایسا کر کے ہیٹ سٹروک سے بچا جا سکتا ہے۔

اسی طرح گرمی کے موسم میں پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال آپ کے جسم کے درجہ حرارت کو بحال رکھنے میں مدد دیتا ہے اور خون کی گردش میں روانی پیدا کرتا ہے۔ اس سے چہرے اور جلد کے ساتھ ساتھ گردے اور مثانے کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔

ہیٹ ویوو اور موسمیاتی تبدیلی

جب مسلسل پانچ دن یا اس سے زیادہ دنوں تک درجہ حرارت نارمل سے اتنا زیادہ ہو جو حیوانات اور پودوں کے لئے قابل برداشت نہ ہو تو اس کو ہیٹ ویوو کہتے ہیں, یہ کہنا تھا یونیورسٹی آف پشاور کے انوائرمنٹل سائنس ڈیپارٹمنٹ چیئرمین ڈاکٹر محمد نفیس کا۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نفیس نے بتایا کہ ہیٹ ویوو کو عموماً گرمیوں میں دیکھا جا سکتا ہے، جون اور اگست کے درمیان، لیکن ہم نے 2022 میں دیکھا تھا کہ مارچ میں ہیٹ ویوو آیا تھا جس نے پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے کئی علاقوں میں پہاڑوں پر آگ بھی لگی تھی۔ ماہرین وقت سے پہلے اور لمبے دورانیے کے ہیٹ ویوو کو موسمیاتی تبدیلی سے منسلک کرتے ہیں۔ ہیٹ ویوو کے بعد شدید بارشوں کا خدشہ بھی رہتا ہے۔

ہیٹ ویوو کو کم کرنے کے لئے فوری طور پر کوئی تخفیفی عمل موجود نہیں۔ البتہ اس سے بچا جاسکتا ہے۔ آسان حل تو یہ بتایا جاتا ہے کہ گھر تک محدود رہیں اور غیر ضروری نقل و حرکت سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن پاکستان چونکہ غریب ملک ہے اس لئے کام کاج کے لئے گھر سے نکلنا پڑتا ہے خاص کر مزدور اور زراعت پیشہ افراد کے لئے گھر تک محدود رہنا مشکل ہوتا ہے۔ انہیں کچھ حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے مثلآ سر پر موٹی ٹوپی رکھنا، چہرے کو چادر سے ڈھانپنا، وقفے وقفے سے پانی لینا اور کوشش کرنا کہ کسی سایہ دار جگہ پر رہیں۔

مزدوروں کے لیے یہ مناسب ہو گا کہ آوٹ ڈور کام نہ کریں، یا اگر مجبوری ہو تو مالک سے بات کر کے کام کے شیڈول میں مناسب تبدیلی کریں جیسے صبح صادق سے دن 11 بجے تک کام کرنا، یا کام کو دو حصوں میں تقسیم کرنا۔ یعنی چھ بجے سے گیارہ بجے تک اور پھر شام پانچ بجے سے سات بجے تک کام کرنا۔ مالک 2و بھی چاہیئے کہ مزدور سے 11 بجے تک آوٹ ڈور کام لیں اور 12 ایک بجے کے بعد انڈور کام لیں۔ اس طرح مزدور طبقے کو ہیٹ ویوو کے منفی اثرات سے بچایا جا سکتا ہے۔ زراعت پیشہ افراد بھی اس سے ملتے جلتے شیڈول اپنا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر نفیس کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مختلف شکلوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جن میں درجہ حرارت کا بڑھنا، بارشوں کے اوقات میں بے ترتیبی، سیلاب میں شدت آنا، وغیرہ شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے لئے دو عوامل تجویز کئے جاتے ہیں، تخفیف اور موافقت۔ تخفیف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانا ہے یا فضاء سے گرین ہاؤس گیسوں کو نکالنا ہے۔

"اس وقت ہمارا فوکس صرف ایک گرین ہاؤس گیس پر ہے یعنی کاربن ڈائی آکسائڈ اور اس کو کم کرنے کے لئے ایک ہی طریقہ پر عمل پیرا ہیں اور وہ ہے شجرکاری۔ جو کہ ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے شجرکاری کو میدانی علاقوں تک محدود رکھا ہے۔ پاکستان کے جغرافیہ کو دیکھا جائے تو پاکستان کا پچاس فیصد سے زیادہ رقبہ پہاڑوں پر مشتمل ہے، دس فیصد صحرا ہے اور چالیس فیصد میدانی علاقہ ہے۔ شجرکاری کو ہم نے چالیس فیصد میدانی علاقے تک محدود رکھا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی کو ایڈریس کرنے کے لئے ہمیں پہاڑی علاقوں کو فوکس کرنا چاہیئے۔”

ڈاکٹر نفیس نے مزید بتایا: ”موسمیاتی تبدیلی میں تخفیف لانے کے لیے ہمیں باقی گرین ہاؤس گیسوں کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا۔ اب تک میتھین کے بارے میں کچھ بھی نہیں کیا گیا حالانکہ یہ ایک طاقتور گرین ہاؤس گیس ہے۔ کم وزن رکھنے کی وجہ سے یہ ‘اپر ٹروپو سفیئر’ میں 11 کلومیٹر کی اونچائی پر جمع ہوتا ہے اور بارشوں میں بے ترتیبی کا باعث بنتا ہے۔

اوزون کی تہہ میں کمی پچیس فیصد موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہے لیکن ہم اس کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں، اس کو قابو کرنا دور کی بات ہے۔ میتھین اور اوزون خراب کرنے والی گیسوں کا شجرکاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس کو قابو کرنے کے لئے ہمیں جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لینا پڑے گا۔

موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا اثر پانی کی دستیابی پر پڑتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں موافقت والی حکمت عملی پر جانا ہو گا۔ ہمیں پانی کے ذخائر بڑھانے ہوں گے۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے مناسب اقدامات کرنے ہوں گے اور ساتھ ساتھ پانی کے استعمال میں کمی لانا ہو گی۔”

Show More

Kaif Afridi

Kaif Afridi is working as a journalist from past 9 years in Peshawar. He belongs to District Khyber. He has vast experience in multimedia work including Digital reporting, News Anchoring and currently working as a Video Editor in Tribal News Network TNN

متعلقہ پوسٹس

Back to top button