عوام کی آوازماحولیات

"جلد سکول چھوڑ دونگی، گھر سے دور پانی بھرنے جیسی سخت ڈیوٹی کے ساتھ اپنی پڑھائی کو جاری نہیں رکھ سکتی”

پانی کی قلت نے کس طرح قبائلی خواتین کو تعلیم سے محروم رکھا اور متاثر کیا ؟

ناہید جہانگیر

سکول سے آنے کے فورا بعد پانی بھرنا پڑتا ہے اس لیے ہوم ورک اکثر رہ جاتا ہے کیونکہ جہاں سے پانی لاتی ہوں وہ جگہ گھر سے کافی دور ہے اتنی تھکاوٹ ہو جاتی ہے کہ پھر سکول سے جو کام ملا ہوتا ہے اس کے لیے وقت نہیں ملتا۔ ضلع مہمند کی 12 سالہ گل مینا جو جماعت پنجم کی طالبہ ہے، مزید کہتی ہیں کہ وہ جلد سکول چھوڑ دے گی کیونکہ وہ گھر سے دور پانی بھرنے جیسی سخت ڈیوٹی کے ساتھ اپنی پڑھائی کو جاری نہیں رکھ سکتی۔

یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے تمام قبائلی اضلاع میں پانی بھرنے کا کام خواتین کی ذمہ داری ہوتی ہیں پانی بھرنے کے لیے اپنے گھروں سے ان کو کافی دور روزانہ جانا پڑتا ہے۔

2023 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے بچوں سمیت 10 ملین سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

دوسری جانب مہمند ضلع سے تعلق رکھنے والی 75 سالہ نور بی بی بتاتی ہیں کہ پہلے زمانے میں کنویں پانی سے اتنے بھرے ہوتے تھے کہ بارش کے دنوں میں وہ خود اپنے ہاتھ سے مٹکے سے پانی نکالتی جبکہ عام دنوں میں کنویں کی گہرائی یہی 2 یا 3 گز تک ہوتی تھی، لیکن اب حال یہ ہے کہ تمام کنووں میں اول تو پانی ہوتا نہیں ہے اور جہاں پر ہوتا بھی ہے تو کافی گہرائی میں پانی ہوتا ہے اور پانی سطح کافی گر گئی ہے۔

نور بی بی کہتی ہے کہ حکومت کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھانے چاہیئے کیونکہ ایک تو قبائلی اضلاع میں ویسے ہی حالات خراب ہے اور پانی بھرنے کے لیے ان کی بچیوں کو گھر سے کافی دور جانا پڑتا ہے۔

خیبر ضلع  لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والا سینئر صحافی مہراب آفریدی جو پچھلے کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پانی کی قلت پر کام کر رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ خیبر ایجنسی میں پہلے پانی کی کوئی کمی یا قلت نہیں تھی لیکن پچھلے 15 یا 20 سال سے کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پورے ضلع خیبر میں پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

جہاں تک ان کو یاد پڑتا ہے خیبر ایجنسی لنڈی کوتل میں 20 سال پہلے پانی کا کوئی بحران نہیں تھا۔ یہاں جتنے بھی چشمے تھے اس میں پانی بہتا تھا اور آبادی کے قریب پانی ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے خواتین کو آسانی تھی۔ کنویں پانی سے ہر وقت بھری ہوتے تھے، گھر کےنزدیک بہت آسانی کے ساتھ لوگ مٹکے بھر کر لے جایا کرتے تھے لیکن چونکہ پچھلے 15  سال سے کلائمیٹ چینج کی وجہ سے بارشوں میں کافی حد تک کمی آئی ہے اور یہاں جو کنویں تھے یا چشمے تھے وہ سوکھ  گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے خواتین کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

مہراب آفریدی کے مطابق پچھلے پانچ سالوں سے لنڈی کوتل کے علاقے پیرخیل، شیخمل خیل، سرہ غبرگہ، خیبر سلطان خیل مزرینہ میں تقریبا 20 سے زائد ٹیوب ویلز خشک ہو گئے ہیں، جسکی وجہ سے ان علاقوں کی خواتین کو ایک پہاڑ اور مشکل راستے سے گزر کر پانی بھرنا پڑتا ہے۔

یاد رہے انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی خیبر پختونخوا کے دستاویزات کے مطابق گذشتہ سال صوبے میں آب نوشی کے شعبہ میں 13 منصوبوں پر 6 ارب 70 کروڑ خرچ کیے گیے ہیں تاکہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی کی سہولیات میسر ہو۔

خیبر پختونخوا موسمیاتی تبدیلی کے سابقہ ڈائریکٹر اور پشاور یونیورسٹی ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر اکمل خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں تمام پانی کے ذخائر موسمی تبدیلی، سیلاب، خشک سالی، پانی کی زیادہ طلب و ضیائع کی وجہ سے کم یا ختم ہو رہے ہیں۔ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مجموعی طور پر پانی کم ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر آصف خان  اسسٹنٹ پروفیسر انوارمنٹل سائنس پشاور یونیورسٹی بتاتے ہیں کہ ہوا کی تبدیل کا اثر سمندروں پر بھی ہے، تغیر کی وجہ سے کیمیائی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کا دوسرا بڑا اثر موسم پر ہے، موسم میں تیزی سے تبدیلی ہو رہی ہے ۔کارخانوں سے خارج ہونے والی گیسوں کے اخراج میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جو کہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہا ہے، اس کا اثر براہ راست خشک سالی پر ہے جو متعلقہ علاقے کے  شعبہ زراعت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت کا بھی سبب بن رہی ہے۔ بارش کا سائیکل تبدیل ہوگیا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید تبدیل ہو گا۔

قدرتی بارش کی اگر بات کی جائے تو وہ قدرتی پانی سے اردگرد موجود تمام مٹی کو تر کر دیتا ہے۔ اس لئے بارش اور نہروں یا ٹیوب ویل کے پانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس لئے بارش سے تمام مٹی تر ہوکر زرخیز ہوتی ہے۔ اور ساتھ میں پانی کے ذخائر بھی بھر جاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے بارش میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ جس کی وجہ سے صاف پینے کے پانی میں کمی ہو رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستان پچھلی دو دہائیوں سے شدید موسمی واقعات کی زد میں ہے اور ہر سال جانی و مالی نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے 1,730 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے۔

تقریباً 40 لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں، 33 ملین افراد متاثر ہوئے، ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا، جبکہ انفراسٹرکچر، گھروں اور روزگار کو شدید نقصان پہنچا۔ بحالی اور تعمیر نو کا تخمینہ 16 بلین ڈالر سے زائد لگایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ دریاؤں کے تحفظ کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ریورز کے مطابق دنیا میں بڑے بڑے ڈیم بنانے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ ڈیم کی تعمیر کے لیے لگائے گئے ابتدائی تخمینے میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا کہ حکومت پاکستان کو پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے ڈیم کے ساتھ ساتھ سخت اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ چند سال بعد پانی کی مزید قلت کا سامنا ہوگا۔ جن پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔

 

 

Show More

Naheed Jahangir

Naheed jehangir is a Freelance Journalist from Peshawar .also she is the First kp facebook live news anchor of pashto local language She has done Mphil in Media studies
Back to top button