چارسدہ: مکئی کے مفت تخم نے سیلاب زدہ کاشتکاروں کی محنت پر پانی پھیر دیا
ہم غریب کاشتکار ہیں، ایک جریب زمین پر مالک کو سالانہ 25 سے 30 ہزار روپے دیتے ہیں، این جی او نے ہمیں مفت تخم دے کر ایک جریب پلاٹ پر فصل اُگانے کو کہا مگر پیداوار حاصل ہی نہیں ہوئی جس سے نہ صرف ہماری محنت بلکہ رقم بھی ضائع ہو گئی۔ کاشتکار
خیبر پختونخوا: ضلع چارسدہ کے سیلاب زدہ کاشتکار گزشتہ سال غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے فراہم کردہ مکئی کے ناقص بیج کے باعث 3800 من پیداوار سے محروم، اور غذائی قلت سے دوچار ہو گئے۔ انگریزی اخبار دی نیوز میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں چارسدہ کے محکمہ زراعت و توسیع کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عصر خان کے حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ غیرسرکاری تنظیم ‘ندائے پاکستان’ کی جانب سے 2024 میں ضلع بھر کی 8 یونین کونسلوں میں 96 کاشتکار، 768 کنال زرعی زمینوں کیلئے مکئی کے غیرمعیاری اور زائد المیعاد بیج اور ملاوٹ شدہ مصنوعی کھاد فراہم کئے گئے تھے جس سے فصل کی پیداوار صرف چارے کی حد تک محدود، جبکہ غلے کی پیداوار صفر فیصد رہی۔
عصر خان کا کہنا تھا: "کسی بھی کاشتکار کی فصل کامیاب نہیں ہوئی اور مکئی کے پودوں پر سرے سے بُھٹے ہی نہیں اُگے۔ ان کی محنت، وقت اور زمینوں کے پٹے کے لاکھوں روپے ڈوب گئے۔ اس حوالے سے متعلقہ غیرسرکاری تنظیم سے پوچھ گچھ اور ملوث اہلکاروں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مکئی کے ناقص تخم سے کم پیداوار کی تائید وہ کاشتکار بھی کر رہے ہیں جنہوں نے گزشتہ سال غیرسرکاری تنظیم کے مفت تخم استعمال کئے تھے۔”
چارسدہ کے ایک کاشتکار خان محمد (فرضی نام) نے ٹی این این کو بتایا کہ انہیں گزشتہ سال ندائے پاکستان کی جانب سے مکئی کے مفت تخم دیئے گئے تھے لیکن بھٹے دانوں سے خالی نکلے: "ہم غریب کاشتکار ہیں، ایک جریب زمین پر مالک کو سالانہ 25 سے 30 ہزار روپے دیتے ہیں، این جی او نے ہمیں مفت تخم دے کر ایک جریب پلاٹ پر فصل اُگانے کو کہا مگر پیداوار حاصل ہی نہیں ہوئی جس سے نہ صرف ہماری محنت بلکہ رقم بھی ضائع ہو گئی۔”
مزید پڑھنے کیلئے: خیبر: باڑہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈی ایس بی اہلکار سمیت تین افراد جاں بحق
خان محمد نے بتایا کہ عمومی طور پر مکئی کی فی جریب پیدوار 20 سے 22 من تک ہوتی ہے مگر ہماری فصل کی پیداوار صرف گھاس پھوس اور چارے کی حد تک رہ گئی، ازالے کے طور پر متعلقہ این جی او نے اس بار بھی ہمیں گندم کے مفت تخم فراہم کئے۔ چارسدہ کے ایک اور کاشتکار نے بھی، جس کو متعلقہ تنظیم نے مکئی کے بیج فراہم کئے تھے، کم پیداوار کے متعلق شکایت کی اور بتایا کہ پیداوار کم تھی مگر چارے کے طور پر انہیں فائدہ ملا: "اگر پیداوار حاصل ہوتی تو ہماری محنت اور اخراجات ضائع نہ ہوتے مگر متعلقہ تنظیم نے ازالے کے طور پر ہمیں اس سیزن میں مفت گندم، ادویات اور کھاد فراہم کئے ہیں۔ دوسری جانب جن کسانوں نے بازار سے مکئی کے بیج خریدے تھے ان کی پیداوار بہتر تھی اور انہوں نے تخم بھی کاشت کرنے کیلئے رکھے ہیں کیونکہ بازار میں ان کو فی من مکئی کے 3 ہزار روپے ملتے ہیں مگر جب کاشتکاروں کو تخم کی ضرورت پڑ جائے تو وہ چار ساڑھے چار ہزار روپے میں بھی نہیں ملتے۔
تاہم غیرسرکاری تنظیم ندائے پاکستان کے ضلع چارسدہ میں تعینات کوآرڈینیٹر ظہور احمد نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے مفت مکئی کے تخم محکمہ زراعت کے ماہرین کی سفارش پر خریدے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ زراعت نے تین قسم کے تخم خریدنے کی تجویز دی تھی مگر ان میں سے ایک دو قسم کے تخم اتنے وافر مقدار میں موجود نہیں تھے تاکہ مطلوبہ کسانوں کو میسر ہوں تاہم جس تخم کا انتخاب کیا گیا وہ موسمیاتی تبدیلیوں اور کاشتکاروں کی عدم توجہی کی وجہ سے پیداوار نہ دے سکا: "ایسا نہیں ہے کہ کاشتکاروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس تخم سے پیدا ہونے والی فصل کو کاشتکاروں نے کئی عرصہ تک چارے کے طور پر استعمال کیا مگر یہ بات درست ہے کہ غلہ ہاتھ نہیں آیا لیکن ازالے کے طور پر اس بار مفت گندم، ادویات، کھاد اور سپرے فراہم کئے گئے ہیں۔”
مگر سوال یہ ہے کہ کسی علاقے میں بیج اگانے کیلئے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟ تو جواب میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہر صحافی محمد داؤد خان نے بتایا کہ جب کسی علاقے میں کوئی فصل اگائی جائے تو اس کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں، آب و ہوا، نمی اور موسم کے چیلنجز کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے: "آپ نے مکئی کے متعلق بات کی تو کیا اسی ادارے نے ان مخصوص علاقوں کی آب و ہوا، نمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں تحقیق کی تھی کہ کیا یہ بیج موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکتے ہے یا نہیں؟ کاشتکار تو نہیں جانتے اور نہ وہ سائنسدان ہیں، ادارے کو تو علم ہوتا ہے کہ کون سا بیج بونا فائدہ مند ہے اور کون سا نہیں۔ اگر وہ ایسے تخم فراہم کرے جو صرف چارے کے طور پر کام آئے تو اس سے نہ صرف کاشتکاروں کی محنت ضائع ہو رہی ہے بلکہ ان کا ذریعہ معاش بھی بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔”
داؤد خان نے تجویز پیش کی کہ غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے مفت تخم کی فراہمی سے پہلے ضروری ہے کہ وہ پہلے حالات و واقعات کا تحقیق کر کے، جائزہ لے کر تخم فراہم کریں تاکہ کاشتکاروں کے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی حالت میں بھی بہتری آئے۔
تاہم محکمہ زراعت چارسدہ کے ڈائریکٹر عصر خان کا کہنا تھا کہ وہ کاشتکاروں کو تربیت اور مشاورت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کے محافظ بھی ہیں: ”کاشتکاروں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر کسی بھی کاشتکار کو کوئی شکایت ہو تو وہ محکمہ زراعت کے ضلعی دفتر آ سکتے ہیں۔”